حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے نورِ نظر اور لخت جگر تھے اور خود بھی ذاتی طور پر نہایت ذہین اور طباع، روشن ضمیر و نکتہ رس تھے، اور طالب علم کا جوہر فطری رکھتے تھے، پھر کسر کس بات کی تھی، جوان ہوئے تو حافظ قرآن اور قاری خوش الحان ہونے کے ساتھ ایک پختہ استعداد کے بالغ النظر عالم ہوگئے۔ مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانی کے انتقال کے بعد حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب مہتمم بنا دیئے گئے۔ اگرچہ آپ کی شہرت اور ملک میں مقبولیت کا آغاز نیابت اہتمام کے زمانہ میں ہی ہوگیا تھا، لیکن مہتمم ہونے کے بعد وقت آیا کہ آپ کے اوصاف و کمالات پورے طور پر ابھریں اور جلا پائیں یہ کمالات تین قسم کے تھے، علمی، عملی، اور اخلاقی، اول الذکر کمال تو یہ تھا کہ علوم و فنون میں پختہ استعداد کے ساتھ ایک طرف حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کی تصنیفات و تالیفات پر گہری نظر رکھتے تھے، اور دوسری جانب حضرت تھانویؒ سے بیعت کا تعلق رکھتے تھے، ظاہر ہے کہ جو شخص ان دونوں نابغہ روزگار بزرگوں کے علوم و فنون پر حاوی ہو اس کو شریعت و طریقت کارمز شناس و نکتہ داں بننے کیلئے اور کیا درکار ہے پھر اس پر حسن تقریر و خطابت کا ملکہ خداداد سونے پر سہاگہ! گھنٹوں بولتے تھے، زبان بڑی شگفتہ اور شائستہ، کہیں کہیں ظرافت اور مزاح کے چھینٹے، آواز ازاول تاآخر یکساں ، نہ زیر و بم نہ اتار چڑھائو، مگر ساتھ ہی منطقی استدلال اور فلسفیانہ تشقیق، اس لئے تقریر عوام و خواص دونوں کی کام کی، بات سے بات اور نکتہ درنکتہ، پھر معلومات کی کثرت اور طبعیت کی روانی کا یہ عالم کہ کیا مجال، ایک تقریر کا مضمون دوسری تقریر میں مکرر آجائے، میرے نزدیک یہ کچھ فیضان حضرت نانوتویؒ اور حضرت تھانویؒ کا تھا۔ عملی کمال یہ تھا کہ کارکردگی کی صلاحیت غیر معمولی تھی، جس کام کو کرتے تھے پوری توجہ اور یکسوئی سے کرتے تھے، ہم نے بارہا دیکھا ہے، ایک مجمع میں بیٹھے ہیں ، لوگ بات چیت میں مصروف ہیں ، اور آپ ایک گائوتکیہ سے ٹیک لگائے اور کاتبوں کی طرح بیٹھے کوئی مضمون مسلسل لکھے جا رہے ہیں ، خالی بیٹھنا تو جانتے ہی نہ تھے، ہر وقت کام سے کام تھا، اخلاقی اعتبار سے وہ اس شعر کا مصداق تھے۔ ہینون لینون ایسارُذ و وکرم سواس مکرمۃ ابناء ایسارً خندہ جبیں و شگفتہ، نرم دم گفتگو اور نرم خو، حلیم و بردبار، متواضع و منکسر المزاج پھر ظاہری حسن و وجاہت بھی ایسی کہ ہزاروں میں ایک نظر آتے تھے، حسن قرا ء ت کا یہ عالم کہ وجد آفریں و کیف آور، غرض کہ یہ کمالات سہ گانہ تھے جنھوں نے مولاناؒ کی شخصیت کو برصغیر کے علماء میں بہت نمایاں اور ممتاز کر دیا تھا۔ اور آپ سچ مچ سرخیل طائفہ بن گئے تھے، اللہ کے فضل و کرم سے عمر کافی طویل پائی، اس لئے جس طرح آپ