حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
Instead of seuling his prophetic message with his blood by becoming casar's victim It was Mohammed's ironic destinyto compromise and debase. His prophetic message be becoming on Arabian Caesarhimself. ترجمہ : ’’بجائے قیصر کا مقہور بن کر اپنی پیغمبرانہ تعلیمات پر اپنے خون سے مہر ثبت کرنے کے یہ محمد کی بدنصیبی ہی تھی کہ انہوں نے مفاہمت کی اور خود عرب کے قیصر بن کر اپنی تعلیمات کو گراوٹ سے ہمکنار کیا۔‘‘(۵) یہ ٹوئن بی (Toynbee) کی ہرزہ سرائی ہے کہ دیکھتا ہوں کہ سب کچھ لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ محمد B کی ذاتِ گرامی دنیا کے لئے رحمۃ للعالمین بن کر آئی تھی اور ان کی سیرتِ مبارکہ اب تک دنیا کی مختلف زبانوں میں دو لاکھ سے زائد لکھی جا چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ حضرت مولانا حکیم الاسلامؒ نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور اس کا اندازِ بیان بڑا اچھوتا ہے۔ استعارہ اور کنایہ کے پیرایہ میں باتیں کہی گئی ہیں جس کی وجہ سے عبارت میں سلاست پیدا ہوگئی ہے۔ ان کی تحریروں سے خودبخود ایسے لوگوں کا استیصال ہوجاتا ہے۔ جو اسلام کے دامن کو داغ دار کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنی مشہور و معروف کتاب ’’مقاماتِ سیرت میں تحریر فرماتے ہیں ۔ ’’جس طرح مادی سورج کا مطلع مشرقی افق کا بلند ترین حصہ رکھا گیا ہے تاکہ وہاں سے اس کی روشنی پورے عالم میں پھیل سکے۔ اسی طرح آفتاب نبوت کے لئے مرکزِ طلوع کعبۂ مقدسہ کو تجویز کیا گیا جو ناف عالم اور وسط زمین تھا اور اسے دنیا کی ہر چہار سمت نسبتِ مساوی تھی۔ جیسا کہ مرکز کو اپنے دائرہ سے ہوتی ہے تاکہ اس کی کرنیں اگر ایک طرف بحیرۂ روم کے کناروں سے ٹکرائیں ۔ جس سے اس کی روشنی مغرب کی وادیوں میں پھیلے تو دوسری طرف بحرہند کی لہروں سے جا لڑیں جس سے مشرقی ممالک ہندوسندھ ایران و خراسان اور چین و جاپان روشن ہوجائیں اور ایک سمت خلیج فارس کے ساحلوں پر اپنا نورانی سایہ ڈالیں جس سے شمال کے علاقے منور ہوں تو دوسری طرف خشکی میں براعظم مصر و سوڈان کے علاقے چمک اٹھیں ۔ اس لئے اس آفتاب کو افق مکہ سے بلند کیا گیا اور آپ نے اس ناف عالم سے آواز دی تو آپ کی صدائے ایمان