حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
جگہ جگہ پھیلی۔ سلاطینِ عالم اور اقوام و ملل کو آوازۂ حق سے روشناس کیا۔ (۶) مولانا حکیم الاسلامؒ قلم کے ساتھ ساتھ زبان کا بھی استعمال کرتے تھے اور اس کے لئے دور دراز کا سفر کرکے اپنا تقریری سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی انجمن اسلامی تاریخ و تمدن کی طرف سے اسٹریچی ہال میں ’’سائنس اور اسلام‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی جو بہت مقبول ہوئی اور اپنی اہمیت و افادیت کی وجہ سے چھپ کر منظر عام پر آئی۔ پچھلے زمانہ میں مسلمانوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی کہ سائنس کی تعلیم سے مسلمان اپنے مذہب سے بیزار ہوجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہستی سے انکار کردیتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں میں سائنسی علوم کا فقدان رہا لیکن ان کا یہ نظریہ درست نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کے مطالعے سے قرآنی آیات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے اور مظاہر قدرت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی صنّاعی کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لیکن پہلے قرآن و حدیث کی تعلیمات سے واقفیت حاصل کرے۔ سائنس اور اسلام کے تعلق سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عالمانہ تقریر میں بڑے فصیح و بلیغ اور تمثیلی انداز میں کہا ہے۔ ’’جس طرح جسم اور مادہ روح کے لئے وسیلۂ عمل ہیں ۔ خود مقصود و اصل نہیں ۔ اسی طرح مادی تصرفات جن کا نام سائنس ہے، روحانی تصرفات کے لئے۔ جن کا نام اسلام ہے۔ اصولاً محض وسیلہ اور ذریعہ کا درجہ پیدا کرسکتے ہیں ۔ خود مقصدیت کی شان کبھی نہیں پیدا کر سکیں گے اور ظاہر ہے کہ جب سائنس وسائل میں سے ہوئی تو پھر یہ ایک عقلی اصول ہے کہ وسیلۂ مقصود کی ضرورت سے اختیار کیا جاتا ہے اور اسی حد تک مقصود میں معین ہو۔ یعنی بقدر ضرورت ورنہ بالاصالہ اس میں انہماک رکھنا اس میں مقصودیت کی شان قائم کرنا جو قلبِ موضوع اور خلاف عقل ہے۔ اس لئے عقلاً ہی یہ بھی واضح ہوا کہ مقصود اصلی یعنی دین سے جدا رہ کر سائنس محض میں انہماک پیدا کرنا کوئی عاقلانہ فعل نہیں قرار پاسکتا ۔ بلکہ اسے وسیلہ کی حد تک اور بمقدار ضرورت ہی اختیار کرنا دانائی ہوگی‘‘۔(۷) اگر چہ مولانا کی کوئی ادبی تصنیف منصہ شہود پر نہیں آئی لیکن ان کی ایک منظوم کتاب ’’آنکھ کی کہانی‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں چھپ کر علمی اور ادبی دنیامیں مقبول ہوچکی ہے۔ لیکن ان کی جتنی کتابیں میری نظروں سے گزری ہیں ، ان میں استعارہ، کنایہ، تمثیل، جدت و ندرت، سہل ممتنع کا اتنا برمحل استعمال ہے کہ ان کی تحریروں میں ادبی شان پیدا ہوگئی ہے جو ان کی خلاّقانہ ذہن کا پتہ دیتی ہیں اور ان کے طرزِ نگارش میں ادبی اور علمی آمیزش سے زبان میں نیا رنگ و آہنگ پیدا ہوگیا ہے جو اپنی معنویت اور افادیت کے لحاظ