حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
درودیوار بھی علم و ادب کی روشنی سے جگمگا اٹھے اور اس نورانی ماحول سے حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی وافر حصہ ملا۔ انہوں نے دینی احکام عوام الناس تک پہنچانے کے لئے تصنیف و تالیف اور خطابت کا سلسلہ شروع کیا ان کے قلم سے بہت سی کتابیں منظر عام پر آئیں ان میں خطبات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کا اسلوب و طرزِ نگارش اپنی تمام ترقیات کے درجۂ کمال اور نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ عصری تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے اندر تعلیم و تربیت میں تغیر پیدا ہو رہا ہے۔ روحانیت کے بجائے مادیت پر نگاہیں مرکوز ہیں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعلیم کو فخرو مباہات کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ مولانا کو اس بات پر اصرار ہے کہ ’’عصری تعلیم گاہوں کے ماحول میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘‘ ان کا ایک اقتباس جس میں جدت و ندرت، بلاغت و نفاست اور زبان نہایت شستہ اور رواں ہے۔ نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں : ’’آج دنیا میں اخلاقی قدریں اگر مفقود ہیں تو صرف اس لئے کہ وہ علم جس کا نام علمِ الٰہی ہے ختم کیا جا رہا ہے۔ جو اخلاقی قدروں کا سرچشمہ ہے اور اگر بداخلاقیاں دنیا میں وبا کی طرح پھیل رہی ہیں تو صرف اس لئے کہ ان رسمیات اور صورتوں کے علم کو باستقلال موضوع زندگی بنا کر فروغ دیا جارہا ہے جس میں سوائے ظاہرداری کے کسی قلبی حقیقت کی سمائی نہیں ہوتی۔ چنانچہ آج بہتات ہے تو کالجوں کی اور افراط ہے تو یونیورسٹیوں کی جن میں انہی مادی لذات ومنافع کے لئے حرام و حلال سے قطع نظر کرلینے کی تعلیم دی جارہی ہے۔ خدائی اخلاق اور خدائی احکام کو پس پشت ڈال دینے کے طریقے تعلیم کئے جا رہے ہیں ۔ جن سے آدمی حیوانیت کی طرف بڑھ رہا ہے اور انسانیت کا چولہ اتار پھینکنے ہی کوسب سے بڑی معراجِ ترقی سمجھ چکا ہے۔ پھر بھی اگر ان میں کچھ اخلاقی دوست اور دین پسند افراد نظر آئیں تو یہ ان کی اپنی سلامتی فطرت یا گھریلو ماحول یا دین داری ماں ، باپ کی تربیت کا اثر ہوسکتا ہے۔ نہ کہ خالص اس مادّی تعلیم کا‘‘۔(۴) جس طرح ہر بڑے ادیب کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے اسی کے تحت اس کی تصنیف و تالیف عمل میں آتی ہے اور اپنے مقصد کی تکمیل کی خاطر شب و روز کوشاں رہتا ہے۔مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا مقصد متعین کر لیا تھا کہ اللہ کا دین ہر کس و ناکس تک پہنچ جائے۔ اس میں اگر کوئی چیز بیچ میں حائل ہوجاتی تھی تو بڑی پامردی سے مقابلہ کرتے تھے۔ جب کبھی مغرب سے ابرسیہ اٹھ کر فضائے اسلام کو کثیف کرنا چاہتا تھا تو آپ کی جنبش قلم براہِ راست یا بالواسطہ اس کا سدِّ باب کرتی تھی۔ مثلاً مغرب کا مثالی مذہبی کردار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ذاتِ گرامی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کے یہاں عظمتِ کردار، بے کسی، مسکنت، ترکِ دنیا، خود آزاری اور قربانی میں ہے۔ ٹوئن بی (Toynbee) ذہنی تیقن کے باعث کردارِ نبوی B کے بارے میں (نعوذ باللہ) تحریر کرتا ہے۔