حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’ہماری زبان کا محاورہ ہے ’’آنکھ سے آنکھ لڑجانا‘‘ یہ محبت ہوجانے کی طرف اشارہ ہوتاہے، کسی کو کسی سے محبت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ آنکھ سے آنکھ ٹکرائی، یعنی محبت قائم ہوگئی۔ تو استاذ ذوق نے جو مانا ہوا شاعر ہے اس نے اس محاورہ کو ایک شعر میں نظم کیا ہے۔ کہتا ہے کہ ؎ آنکھ سے آنکھ ہے لڑتی، مجھے ڈر ہے دل کا کہیں یہ جائے نہ اس جنگ وجدل میں مارا توبڑی خوبصورتی سے آنکھ لڑنے کے محاورے کو اس نے نظم کردیا اور اس شعر کو لوگ واقعی ضرب المثل کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ اسی مضمون کو ایک ہندو شاعر نے ادا کیا ہے۔ مکنددرم اس کا نام ہے۔ اس نے اس مضمون کو بڑھا دیا اور بہت نازک خیالی دکھلائی۔ و ہ کہتا ہے کہ ؎ دل کی نہیں تقصیر مکند، آنکھیں ہیں ظالم یہ جا کے نہ لڑتیں ، وہ گرفتار نہ ہوتا(۲) خیرالقرون میں بھی زبان و ادب کا پاس و لحاظ کیا گیا ہے۔ خود رسول اللہB کی زبانِ مبارک بہت ہی فصیح و بلیغ تھی اور صحابہ کرام بھی آپ کے نقشِ قدم پر چل کر زبان و بیان کو سیکھتے تھے۔مجلسیں منعقد ہوتیں اور اہل زبان فصیح و بلیغ انداز میں اپنی زبان دانی کا مظاہرہ کرتے۔ جس کی صدائے باز گشت آج بھی سنی جاسکتی ہے۔ مولانا قاضی اطہر مبارک پوریؒ اس بارے میں رقم طراز ہیں : ’’مجلس نبوی میں زبان و ادب کی مجلسیں بھی منعقد ہوتی تھیں اور شعراء، ادباء، فصحاء کے کلام سے اربابِ ذوق محظوظ ہوتے تھے۔ اس بارے میں آلِ زبیر مشہور تھے۔ ان میں حضرت ثابت بن عبداللہ بن زبیر سخاوت، شجاعت، خطابت، فصاحت و بلاغت میں گویا قریش کے ترجمان تھے اور مسجد نبوی میں بیٹھ کر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے تھے۔ اہل مدینہ خاص طور سے ان کی مجلس میں ان کا کلام سننے کے لئے آتے تھے۔ مسوربن عبدالملک کا بیان ہے ’’ہم لوگ مسجد نبوی میں حاضر ہوتے تھے۔ صرف حضرت ثابت بن عبداللہ کے کلمات و الفاظ سننے کی کشش ہم کو وہاں لے جاتی تھی۔ (۳) یہی صحابہ کرام جب اشاعت دین کی خاطر اقصائے عالم میں پھیل گئے تو اپنی فصیح و بلیغ زبان میں دین اسلام کی تبلیغ کی جس کی اثر پذیری کا یہ عالم تھا کہ دنیا کی ظلمت و تاریکی کافور ہونے لگی اور اسلام مہر عالم تاب کی مانند درخشاں نظر آنے لگا، جس کی شعاعیں بلا امتیاز دنیا کے ہر گوشے میں پہنچیں ۔ ہمارے ملک ہندوستان کو بھی اس سے وافر حصہ ملا۔ اسلامی اور عربی علوم کی بے شمار درس گاہیں وجود میں آئیں اور دارالعلوم دیوبند کے