حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یہ ہیں وہ خصوصیات و اوصاف جو حضرت حکیم الاسلامؒ کو ان کے دیگر ہم عصروں سے ممتاز بناتے ہوئے آپ کو ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ چنانچہ میرا اپنا یقین یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ مدت کو محیط، حضرت حکیم الاسلام محمد طیب صاحب علیہ الرحمہ کے منصب اہتمام کا اختتام، دارالعلوم دیوبند کے کار اہتمام کا اختتام ہرگز نہیں تھا بلکہ عہد سازی کی ایک خوش گوار میعاد کی تکمیل تھی۔ یہ الگ شئے ہے کہ بدقسمتی سے ناگفتہ بہ احوال و کوائف کے سائے میں یہ تکمیل امت مسلمہ کے سامنے آئی۔ اور جب حضرت حکیم الاسلامؒ مذکورہ اوصاف و امتیازات کے حامل تھے اور یقیناً تھے، اور آپ کا ساٹھ سالہ دور اہتمام جو بظاہر دارالعلوم دیوبند کے انتظام و انصرام کا زمانہ ہے، دراصل یہی دور بالخصوص براعظم ہندو پاک میں دینی شعور کے حوالے سے قوم و ملت کی نشاۃ ثانیہ کا دور ہے جس کا معمار بجا طور پر مظفرالدین،خورشید قاسم، حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کو قرار دیا جانا چاہئے۔ اس وقت جب کہ ہندوستان میں شخصی تقلید کے لئے ’’گاندھی گری‘‘ کے نام سے تشکیلی مہم زووں پر ہے اور جس کو ہندوستانی قوم میں صلاح و فلاح کی خوشبو پید اکرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی سیرت و سوانح کو سامنے رکھ کر برصغیر میں امت مسلمہ کی نئی نسل میں اصلاحی و ارتقائی انقلاب برپا کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جانی چاہئے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کے حالاتِ زندگی میں نئی نسل حالات حاضرہ کے تناظر میں اتباع قرآن و سنت اور فکر و نظر میں اعتدال کی روشن قندیلیں ڈھونڈ کر ان قندیلوں سے قوم و ملت کی پیشانی کو مزین کرنے کی کوشش کرے تاکہ اتحاد باہمی، امن و امان اور مطلوبہ رواداری کی فضا بنے اور پھر پورا براعظم ہند و پاک یہ پکار اٹھے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے آفاقی کارناموں کے طفیل مردم سازی کا مشن آج بھی زندہ ہے۔ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ ……v……