حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سے زیادہ کچھ نہیں جانتی کہ وہ حج و نماز کا قبلہ ہے۔ نماز یں اس کی طرف رخ کرکے پڑھ لی جائیں اور حج اس میں حاضری دے کر ادا کر لیا جائے(۲۳) اور اس کے آگے فرماتے ہیں کہ ’’ان سے کیا کیا اسلامی مقاصد وابستہ ہیں ؟ نہ ان کو اس کا علم رہ گیا ہے اور نہ اس علم کی طلب ہی ذہنوں میں کچھ باقی ہے۔ امت کی لاعلمی اپنے انتہا تک پہونچ چکی ہے لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ انقلاب کیسے آیا اور امت اس قدر غافل کیوں ہوگئی؟ میری اپنی رائے میں اس کی وجہ مسلمانوں میں موروثی ملوکیت کا قیام تھا۔ ملوکیت یا بادشاہت، چاہے اس کے سربراہ عیسائی، ہندو یا مسلمان ہوں ان کا بنیادی نظریہ عوام کو تقسیم کرنا اور علم سے دور کرنا ہوتا ہے۔ اسلام سماجی برابری میں یقین رکھتا ہے لیکن ساتویں صدی عیسوی کی دوسری دہائی میں ملوکیت کے قیام کے بعد مسلمانوں کو تقسیم کردیا گیا۔ عرب، غیر عرب، موالی وغیرہ اور تاریخ کے ساتھ ساتھ اس تقسیم میں اضافہ ہی ہوتارہا۔ سید، شیخ پٹھان، بڑھئی، لوہار، جولاہا نہ معلوم کس حد تک مسلمان تقسیم ہوگیا۔ ہندوستان میں تیرہویں صدی عیسوی کے مورخ اور سیاسی مفکر ضیاء الدین برنی صاحب تاریخ فیروزشاہی (۲۵) و فتاویٰ جہانداری (۲۶) علم کے سلسلے میں رائے رکھتے ہیں کہ عام مسلمانوں کو صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی تعلیم دینی چاہئے۔ اس سے زیادہ انہیں تعلیم دینے کا مطلب ہوگا کہ کل وہ حکومت میں عہدوں کے دعوی دار ہوں گے اور انہیں تعلیم دینا ایسا ہی ہوگا جیسے کتے کے گلے میں سونے کی زنجیر ڈالنا(۲۷) اور اسی بیان کے سلسلے میں ایک فارسی شعر لکھتے ہیں ۔ بدست دوں مدہ خامہ کہ گردوں را مجال افتد سیہ سنگی کہ در کعبہ است سازد سنگ استنجا عام لوگوں کو قلم مت دو اس لئے کہ اگر ان کے ہاتھ میں قلم آگیا تو وہ سنگ اسود کو استنجا کے ڈھیلے کے طور پر استعمال کرلیں گے۔‘‘ اور نہ صرف برنی بلکہ اسی صدی کے مسلم فرماں روا سلطان شمس الدین التمش اور سلطان غیاث الدین بلبن جن کو مسلم علماء و مورخین نے امیر المومنین اور ظل اللہ کے القاب سے نوازا ان کے دور میں اگر غلطی سے کسی چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے مسلمان کو حکومت میں عہدہ مل بھی جاتا تو اس حقیقت کے آشکار ہونے پر کہ اس کا تعلق کسی چھوٹی ذات سے ہے۔ اس عہدے سے برطرف کر دیا جاتا۔ سلطان محمد بن تغلق جو مسلمانوں میں بہت بدنام ہے جب اس نے چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو حکومت میں عہدوں سے نوازا تو برنی اور دوسرے علماء اور امراء نے محمد بن تغلق کی اس پالیسی کی سخت مخالفت کی اور کہا کہ اس طرح کی پالیسی سے اشراف کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں انہیں حالات کے تحت مسلمان تعلیم میں یوروپ، انگلینڈ اور امریکہ سے کافی پیچھے ہیں ۔ خود ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیم کی شرح فی صد صرف بیس فی صد ہے جس کا مطلب ہوا کہ اسّی فی صد