حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آپ لکھتے ہیں کہ ’’مقامات مقدسہ‘‘ کا لفظ آپ کے کانوں میں بارہا پڑتا رہا ہے جس س آپ ناآشنا نہیں ہیں لیکن یہ مقامات کہاں ہیں ؟ کون سے ہیں ؟ کتنے ہیں ؟ ان کی بنیادیں کیا ہیں ؟ اور ان کی حفاظت و آزادی کے کیا معنی ہیں ؟ اور ان میں سے کسی کی آزادی سلب ہوجانے کی صورت میں مسلمانوں کے فرائض کیا ہیں ؟ شاید ان تفصیلات سے اکثر و بیشتر نعرہ زن حضرات بھی واقف نہیں (۱۲)۔ مقدمہ میں ان سوالات کو اٹھایا ہے اور آپ کی کتاب انہیں سوالات کا جواب ہے۔ آپ نے اپنے اس موضوع کا ماخذ قرآن مجید کی ’’سورہ والتین والزیتون‘‘ کی پہلی آیت کے الفاظ اور ان کے حسن سیاق و سباق کو قرار دیا ہے(۱۲)۔ ظاہر ہے کہ مورخ بغیر ماخذ کے بات نہیں کرتا۔ آپ لکھتے ہیں ’’اس مسئلہ میں جس حد تک بھی شرعی اور عقلی مواد یکجا کیا جانا ممکن تھا اس سے دریغ نہیں کیا گیا(۱۴)۔ ایک اور اچھے مورخ کی پہچان مولانا محمد طیب صاحبؒ کے اس جملے سے ہوتی ہے‘‘ اس میں میرا مفہوم کس حد تک صحیح ہے اور کتنا غلط ہے(۱۵)۔ ’’حق تعالیٰ نے ان تین مقامات قدس کے شہر، طورِ سینا کے پہاڑ اور بلد امین یعنی مکہ مکرمہ کی قسم کھا کر بھی نوع انسان کی پاکیزہ صورت و سیرت پر استدلال فرمایا(۱۶)۔ آپ فرماتے ہیں ’’ان ہی تین مقامات سے دنیا کی تین وہ بڑی بڑی قومیں ابھریں ، یعنی یہود، نصاریٰ اور مسلمین(۱۷)۔ اس کے بعد آپ رقم طراز ہیں کہ ’’اسلام کے جامع دین کو تین مرکزوں کی عقلاً اور شرعاً ضرورت تھی اور وہ تین مرکز باشارہ قرآنی مکہ، قدس اور طور سینا ہیں ۔ جب حضرت خلیل اللہ تیسری بار حجاز تشریف لے گئے تو حق تعالیٰ کی طرف سے بیت اللہ کی تعمیر کا حکم ملا اور دونوں مقدس باپ بیٹوں حضرت خلیل اللہ اور حضرت ذبیح اللہ نے مل کر مسجد حرام کی تعمیر فرمائی۔ اس سے فارغ ہو کر حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے پھر فلسطین ہی کا قصد فرمایا(۱۸) پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر انہیں کوہِ طور پر جانے کا حکم ہوا۔ وہاں کلامِ ربانی سنا اور شرف کلیمی سے مشرف ہوئے ، تورات عطا ہوئی(۱۹)۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’ظاہر ہے کہ جس پہاڑ پر کلام ربانی کی آواز گونجی اور جس پہاڑ کے خطے پر جلیل القدر پیغمبر نے چلہ کشی کی اور جس کے ایک مبارک حصے میں قانونِ الٰہی کی الواح سپرد کی گئیں ، اس پہاڑ کے مقدس بن جانے میں کلامِ ہی کیا ہوسکتا ہے(۲۰)۔پھر فرماتے ہیں ’’ان کے بعد بنی اسرائیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے اولوالعزم جلیل القدر پیغمبر حق تعالیٰ نے بھیجا(۲۱) ‘‘ مسجد اقصیٰ کی بنیاد ڈالی تاکہ بنی اسرائیل ملت ابراہیمی سے ہٹنے نہ پائیں (۲۲)۔ اس طرح سے یہ تین مراکز اہمیت کے حامل ہوئے اور یہی زندگی کا محور قرار پائے۔ یہی علم و یقین کا مرکز بن کر ابھرے۔‘‘ پھر انقلاب احوال سے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’صد حیف و حسرۃ کہ وہ اس عالمی مرکز کے بارے میں اس