حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
زبان زد ہے۔ اس سے پہلے بھی مسلمان جب حج کے لئے روانہ ہوتے تھے تو یہ کہہ کر جاتے تھے کہ ہم مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں (۹)۔ ۱۹۸۳ء تک مقامات مقدسہ کی اصطلاح عام فہم تھی اب نہ تو حج کرنے جانے والے استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی عام مسلمانوں کی سمجھ کا حصہ رہی۔‘‘ اب نئی نسل کو مقامات مقدسہ کو ڈکشنری سے حل کرنا ہوگا تو ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۶ء تک یہ فرق آگیا۔ آپ لکھتے ہیں ’’ترکی کی خلافت ختم ہوجانے کے بعد اسلامی ممالک میں انتشار پھیلا اور ان کی بقا خطرہ میں پڑگئی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے ’’انجمن خدام کعبہ‘‘ قائم کرکے اس کا نصب العین ہی مقامات مقدسہ کی حفاظت و صیانت قرار دیا۔ خلافت کمیٹی قائم ہوئی تو اس کا ابتدائی منصوبہ بھی مقامات مقدسہ کی حفاظت تھا (۱۰)۔ مسلمانوں میں انتشار تو خلافت کے خاتمہ اور ملوکیت کے ۶۶۱ء کے عروج سے ہی پھیلنا شروع ہوگیا تھا اور ترکی کی نام نہاد خلافت اسی ملوکیت کی نشانیوں میں سے ہی تھی۔ تحفظ مقامات مقدسہ کے لئے جو کام ہندوستانی مسلمانوں نے کیا وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’تقسیم فلسطین کی منحوس ساعتوں میں جب ہندوستان بھر میں اجتماعی جلسے ہوئے تو ان کی اساسی روح بھی مقامات مقدسہ کی حفاظت اور ان کے لئے آواز اٹھانا تھی‘‘(۱۱)۔ مغربی طاقتوں نے اس سلسلے میں جو کام کیا وہ تو ہے ہی لیکن تقسیم فلسطین کی بنیاد بھی مسلمانوں میں ملوکیت کا قیام ہی ہے۔ حضرت محمد B نے جس اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی تھی وہ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد تھی اگر مسلمان اس بات پرقائم رہتے تو کامیاب رہتے لیکن مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی سے موروثی ملوکیت کو اپنا لیا اور وہی مسلمانوں کے زوال و تباہی و بربادی کا سبب بنی اور ہے۔ ایک موقعہ مسلمانوں کو ۱۹۷۹ء میں ملوکیت چھوڑ کر اسلامی جمہوری نظام کی طرف جانے کا ملا تھا۔ ایران میں تو موروثی آریا مہری شہنشا ہیت کی روایت کافی قدیم تھی انہوں نے تو موروثی ملوکیت کو چھوڑ کر اسلامی جمہوری نظام اپنا لیا لیکن اس کے پڑوسی عرب ممالک جب کہ ان کے یہاں قبل از اسلام بھی جمہوری سیاسی نظام تھا اور عرب مسلمانوں نے تو ملوکیت کو ساتویں صدی عیسوی میں اختیار کیا تھا لیکن وہ آج تک موروثی ملوکیت اپنائے ہوئے ہیں ۔ لیکن بجائے اس کے کہ اسلامی جمہوری نظام کو اپناتے، اس کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں وہ ملک تباہ و برباد ہوگیا اور دوسرے ممالک کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی اور اب اس حالت میں نہیں کہ مغربی طاقتوں کے سامنے مسجد اقصیٰ کی بات بھی کر سکیں ۔ مسلمان ان حالات کے وجوہات دوسری جگہ تلاش کرتے ہیں اس کے وجوہات خود ان کے اندر ہیں ۔ آج جو مسلمانوں کی حالت ہے تاریخ شاہد ہے کہ اتنی خراب حالت کبھی نہیں رہی۔