حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
میں تعمیر کی اس کا نام قوت الاسلام رکھا۔ اجمیر جو چشتی سلسلہ کا مرکز بنا اس کا نام دارالخیر رکھا۔ چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں تو مقامات مقدسہ کا ذکر ہندوستانی علماء و مشائخ کے تذکروں اور سفرناموں میں ملتا ہے۔ لیکن بعد میں اس طرف توجہ بہت کم ہوگئی۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کا بڑا اہم کارنامہ مساجد، مدارس اور خانقاہوں کا قیام تھا جہاں سے انہوں نے اسلام کی تبلیغ کی اور اس لحاظ سے ہندوستان کے یہ اہم مقدس مقامات کہلائے۔ ہندوستان میں برٹش راج کے قیام کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے ان آثار میں دلچسپی لینا شروع کی اور میجرولیم فرینکلس کی خواہش پر شیام پرشاد نے کیفیات و مکانات گوڑ اور لکھنوتی ۱۸۱۰میں قلم بند کئے (۲)۔ جس میں اسٹیفن لوشنگٹن نے۱۸۲۵میں کالج کے طلبہ سے دو کتابیں آثارِ آگرہ پر لکھوائیں ۔ تاریخ آگرہ (۳) اور تفریح العمارات (۴) آگرہ کے آثار سے متعلق لکھوائیں پھر چارلس تھیوفلس مٹکاف اور ولیم فریزر نے مرزا سنگین بیگ کو مشورہ دیا کہ وہ دہلی کے آثار پر کتاب لکھیں جس کے نتیجے میں سنگین بیگ نے ۱۸۲۷ سیر المنازل (۵) لکھی پھر سرسید نے دہلی کے آثار قدیمہ پر آثار الصنادید ۱۸۴۷ میں لکھی ان کو کسی انگریز نے مشورہ نہیں دیا بلکہ ان کا محرک یہ شعر تھا ازنقش و نگار در دیوار شکستہ آثار پدیدست صنادید عجم را اردو زبان میں تاریخ نگاری کی صحت مند روایت سرسید نے ڈالی اور آثار الصنادید لکھ کر ان مساجد، مدارس، خانقاہوں ، درگاہوں کو محفوظ کردیا۔ مولانا محمد طیب صاحب ؒکی ’’مقاماتِ مقدسہ‘‘ اردو زبان میں اسی روایت کی کڑی ہے کہ جس کی بنیاد سرسید احمد خاں نے ڈالی تھی۔ ’’مقاماتِ مقدسہ‘‘ کو میں مولانا محمد طیب صاحبؒ کا ایک اہم کارنامہ سمجھتا ہوں اس لئے کہ ہمارے علماء نے اس موضوع پر توجہ بہت کم دی ہے جب کہ ہر لحاظ سے یہ موضوع بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میں محمد ہشام قاسمی کی رائے سے متفق ہوں ۔ ’’مضمون بے حد اہم و علمی ہے۔(۷) مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی لکھتے ہیں ’’العلماء ورثۃ الانبیا‘‘ علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کی میراث مال و دنیا نہیں علم ہوتاہے(۸)لیکن صرف وہی علماء وارث ہوں گے جو آنے والی نسلوں کے لئے اپنے علمی کارنامے میراث میں چھوڑ کر اس دنیا سے جائیں گے۔ مقامات مقدسہ اسی میراث کی ایک کڑی ہے۔ مقدمہ میں لکھتے ہیں ’’مقاماتِ مقدسہ‘‘ کا لفظ آپ نے بارہا سنا ہوگا۔ بالخصوص ۱۹۲۰ء کے ہندوستان کی تحریکاتی زندگی نے تو مقاماتِ مقدسہ کے لفظ کو مسلمانوں کے لئے روز مرہ کا ایک محاورہ بنا دیا تھا جو آج تک