حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نہیں ہے۔ یہاں صرف ایک اصول کا ذکر کروں گا، جس سے اسلام میں تشریع کی روح اور اس کے کلّی مزاج کا واضح طور پر اظہار ہوتاہے۔ یہ اصول قرآن کے الفاظ میں ملاحظہ ہو: وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ (سورہ حج:۷۸) ’’اس نے دین میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔‘‘ مولاناؒ نے اس قرآنی اصول کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’اسلام کا مزاج دین کے بارے میں ضیق اور تنگی کا نہیں بلکہ فراخی کا ہے۔معذوروں کو مجبور نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے مناسب حال راہ نکالی جاتی ہے۔‘‘ (۱۳) مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اصول و کلّیات سے مستخرجہ وہی جزئیات (ذیلی قوانین) معتبر ہوں گے جو مقاصدِ شریعت سے پوری طرح ہم آہنگ ہوں ۔ ان میں رحمت ہو، زحمت نہ ہو، آسانی ہو، تنگی نہ ہو، نفع بخشی ہو، ضرر رسانی نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عقلِ سلیم اور فطرت کے موافق ہوں ، مخالف نہ ہوں ۔ اگر کسی اجتہاد میں خواہ وہ قدیم اجتہاد ہو یا جدید، یہ خصوصیت نہ ہو تو اس پر حقیقی معنی میں اسلامی قانون کا اطلاق نہ ہوگا۔ ہم نے گزشتہ صفحات میں اجتہاد کے بارے میں حکیم الاسلامؒ کے خیالات کا جو اجمالی جائزہ لیا ہے اس سے واضح ہوگیا کہ وہ اس باب میں بعض میں ذہنی تحفظات کے باوجود کھلا ہوا ذہن رکھتے تھے اور اس مسئلے کو وسیع تناظر میں دیکھنے کے قائل تھے۔ ان کے الفاظِ ذیل بڑے بصیر ت افروز اور اس بحث کا خلاصہ ہیں : ’’فکر ہی انسان کی امتیازی صفت ہے، فکر ہی انسانی حقیقت کی فصلِ ممیّز ہے، فکر ہی سے علم و معرفت کے دروازے کھلتے ہیں ، فکر ہی انسان کی ظاہری اور باطنی قوتوں کا امام اور سربراہ ہے۔ اگر فکر اسلام میں مطلوب نہ ہوتا تو اجتہاد کا دروازہ کلّیۃً مسدود ہوجاتا اور شرائعِ فرعیہ امت کے سامنے نہ آسکتیں ۔ یہ بحث الگ ہے کہ کس درجہ کا اجتہاد باقی ہے اور کس درجہ کا ختم ہوچکا ہے، مگر اجتہاد کی جنس بہرحال امت میں قائم رکھی گئی ہے جو برابر قائم رہے گی۔‘‘(۱۴) ………………………………………… (1) The Reconstruction of Religious Thought in Islam, by Allama Iqbal P. 152 مزید دیکھیں : الطاف احمد اعظمی، اقبال کا تصوّرِاجتہاد ، سرسید فائونڈیشن، ۲۵، ص: ۱۲ (۲) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،عقدالجیّد فی احکام الاجتہاد والتقلید، ص:۶