حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
علوم و فنون میں مہارت رکھتے ہوں کیوں کہ عصر جدید کے بعض مسائل کی تفہیم کے لئے جدید علوم کی طرف مراجعت کے بغیر چارہ نہیں ۔ حکیم الاسلامؒ اس عصری ضرورت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’اس سلسلے میں کٹھن مرحلہ ایسی جامع شخصیتوں کی فراہمی ہے جو شرعیات اور عصریات میں یکساں حذاقت و مہارت کی حامل ہوں ۔ عموماً اور اکثر و بیشتر ماہرین شرعیات، عصریات سے کچھ نابلداور موجودہ دنیا کی ذہنی رفتار اور اس کے گوناگوں نظریات سے بے خبر ہیں اور ماہرینِ عصریات اکثر و بیشتر شرعیات سے ناآشنا ہیں ، ان حالات میں درمیانی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ فکر اسلامی کی تشکیل کے لئے دونوں طبقوں کے مفکرین کی مختصر اور جامع کمیٹی بنائی جائے، جس میں یہ دونوں طبقے اسلام کے تمدّنی، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں اپنے اپنے علوم کے دائروں میں غور و فکر اور باہمی بحث و تمحیص سے کسی فکر واحد پر پہنچنے کی سعی فرمائیں (۱۱)۔‘‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ جو جماعت یہ کام کرے اس کے تمام افراد ایسے ہوں جو علم و فنون میں جامعیت کے ساتھ ایمانی مزاجی اور اسلامی طرز فکر کے حامل ہوں ورنہ تشریع میں نفس غیر پاکیزہ کی فتنہ انگیزی سے مامون ہونا نہایت مشکل ہوگا۔ وہ خود بھی گم راہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی زیغ و ضلالت میں مبتلا کریں گے۔ انہوں نے کسی لاگ کے بغیرموجودہ صورتِ حال کی ترجانی کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ مربی اورمعلم یا مصلحِ فکر اگر خود صحیح المنہاج ہوگا تو وہی قلوب کی صحیح رہنمائی کر سکے گا ورنہ خود اگر اس منہاج کا فکر لئے ہوئے نہ ہو یا قلب کا کوئی زیغ اور کجی لئے ہوئے ہو تو کتاب و سنت سے بھی وہ اسی زیغ ہی کو سامنے لا کر دوسرے قلوب میں بھردے گا۔ آخر مسلمانوں میں آج کتنے متضاد فرقے ہیں جو قرآن کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں اور اسی کا نام لے کر اپنی اپنی فکر دنیا کے سامنے رکھتے ہیں ۔در آں حالیکہ ان متضاد فرقوں میں کوئی ایک ہی حق و صواب پر ہو سکتا ہے، سب کے سب اس تضادِ فکر کے ساتھ محقق نہیں کہلائے جا سکتے (۱۲)‘‘ متذکرہ بالا بنیادی امور کے ذکر کے بعد حکیم الاسلامؒ نے ان اساسی اصولوں کی ایک اجمالی فہرست پیش کی ہے جو اسلامی تشریع کا ماخذ و مصدر ہیں ۔ انہی اصولوں کی رہنمائی میں علماء سلف اور مفکرینِ ملت نے ہر دور کے متفرق مسائل اور معاملات کا حل تلاش کیا اور شریعت کے عملی جزئیات مستنبط کئے ۔ آئندہ بھی یہی اصول ہر طرح کے انفرادی و اجتماعی مسائل کی گرہ کشائی میں اطمینان بخش طور پر کلیدی کردار ادا کریں بشرطیکہ ان اصول و کلیات کی تفہیم میں کوئی غلطی واقع نہ ہو۔ اس مختصر مقالے میں اِن تمام اصولوں کا ذکر ممکن