حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وصحبت دودنوں تک پونہ کے سفر میں حاصل رہی۔ ان کے حلقہ ٔ اردات سے میرا بھی دینی وعلمی تعلق تھا میرے دوست اور حکیم الاسلامؒ کے بے تکلف خادم جناب سجاد حسین صدیقی نے میری کتاب ’’ہندوستان میں عربوں کی حکومتیں ‘‘ حضرت حکیم الاسلامؒ کو سفر میں وقت گذاری کے لیے دیدی تھی ۔ ہمارے کئی بزرگ اپنے حلقئہ ارادت ومشیخیت میں دوسروں کی پذیرائی اور موجودگی کو اپنے حق میں مضر سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کہیں ہمارے حلقہ میں دراڑ نہ پڑجائے اس لئے وہ ہر وقت اسی فکر میں رہ کر اپنے خور دوں سے ایک گونہ بے اعتنائی برتتے ہیں اور کو ئی ایسی بات نہیں کر تے جس سے خوردہ نوازی ظاہر ہو مگر حضرت حکیم الاسلامؒ ؒکے اپنے ذہن ومزاج اور اخلاق کے اعتبار سے اتنا بلند تھے کہ خورد نوازی کو اپنے لئے مضر نہیں سمجھتے تھے اور ان کے ساتھے بڑے انبساط وانشراح سے پیش آتے تھے حتّی کہ بعض اوقات ان کے اخلاق کریمانہ سے شرم محسوس ہونے لگتی کھانے اور ناشتے کے وقت اپنے پاس بٹھاتے تھے ۔سامنے کے خاص خاص کھانے میری طرف بڑھاتے تھے اور اصرار کر کے کھلاتے تھے خود تو عمر کے تقاضے اور مرض کی پرہیزی کی وجہ سے کم خوری پر مجبور تھے ۔اور مجھ کو بسیار خوری پر مجبور کر تے پچاسوں مریدوں اور معتقدوں سے بھرے دستر خوان پر اس قسم کا مظاہر ہ خورد نوازی کے ساتھ وسعت ظرفی اخلاقی برتری اور حوصلہ مندی کی بات ہے ۔ ان واقعات کے نتیجہ میں میرے نزدیک حضرت حکیم الاسلامؒ کی عظمت بڑھ جاتی ہے اسی سفر میں حضرت حکیم الاسلامؒ ؒکا وعظ ہوا ۔ظاہر ہے ان کے نام پر کتنا زبردست مجمع ہوا ہوگا ۔آپ نے مجھے پہلے تقریر کا حکم دیا ۔عام طور سے مصنف وصحافی تقریر وخطابت میں یوں ہی سے ہو تے ہیں جس طرح مقرر وخطیب کے لئے چند سطریں سلیقے سے لکھنا ’’کارے دارد ،،ہوتا ہے ویسے بھی میں تقریر کے میدان سے دور رہتا ہوں ۔ مگر حضرت حکیم الاسلامؒ ؒکی ان کے الفاظ میں گذارش پر انکارنہ کر سکا اور تھوڑی دیر کچھ بیان کیا اس کے بعد آپ نے خطبئہ مسنونہ پڑھ کر اپنے وعظ کی ابتدا میرے بیان کی تعریف وتو صیف سے فرمائی اور کہا کہ اس جامع تقریر کے بعد مزید کی ضرورت نہیں ہے اس لئے اسی متن کی شرح کروں گا ۔ چنانچہ شروع سے آخر تک اسی کا حوالہ دیتے رہے اور پورے وعظ کا موضوع یا متن اسی کو قرار دیا ۔ اب ایسے لوگ کہاں ملیں گے؟ پھر بات پر بات آگئی ۔ ایک جلسہ میں کئی علماء ومقررین مدعو تھے جن میں میں بھی شامل تھا میں نے ایک خاص موضوع پر اپنی تقریر میں زور دیا ۔ میرے بعد ایک بزرگ نے تقریر فرمائی جس کی ابتدا میری تقریر کی مخا لفت سے تھی اور وہ کہتے رہے کہ آج مسلمانوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس بات کی