حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
واقعات سے واقفیت تو نہ تھی لیکن اس بات سے دل بے چین تھا کہ اس آخری عمر میں حضرت حکیم الاسلامؒ پر ان ہنگاموں کی وجہ سے کیا بیت رہی ہوگی؟ اس زمانے کے حالات اس قدر پیچیدہ ہیں اور ان کے بارے میں ملنے والی اطلاعات اتنی متضاد ہیں کہ اب حق وناحق کا فیصلہ تو شاید آخرت ہی میں ہو سکے گا، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے چھوٹوں نے ان کی نصف صدی سے زائد کی خدمات کا جو صلہ اس آخری عمر میں ان کو دیا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی زندگی تک ایک ضعیف سی امید باقی تھی کہ شاید اس بحران کا کوئی مناسب حل نکل آئے، لیکن اب ان کی وفات نے اس امید کو بھی خاکستر کر دیا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کے دم سے دارالعلوم دیوبند میں بزرگوں کی روایات زندہ تھیں اور اس کے مخصوص مزاج و مذاق کی جھلک باقی تھی اب دارالعلوم کی ان روایات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی وفات بلاشبہ پوری امت کے لئے عظیم سانحہ ہے، وہ ۴؍شوال المکرم ۱۴۰۳ھ کو ہمیں داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے تھے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ دارالعلوم دیوبند میں سلف کی آخری یادگار تھے۔ ان کی وفات کسی ایک شخص کی وفات نہیں ۔ یہ ایک پورے عہد کا اس کے مزاج و مذاق کا اور اس کی دل آویز خصوصیات کا خاتمہ ہے۔ اور اس کے سانحے کی ٹیس نہ جانے کب تک دلوں میں تازہ رہے گی۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ وما کان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنـــہ بنیان قـــوم تہدمھا ……v……