حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سرے سے نصوصِ قرآن و سنت کے مطابق نئے عملی جزئیات کا استخراج۔ اس نوع کے اجتہاد کا نام فقہ کی اصطلاح میں اجتہاد فی الفتویٰ ہے(۲)۔ یہ سوال بہت اہم ہے اور برابر اٹھایا گیا ہے کہ آخر چوتھی صدی کے بعد اجتہاد مطلق مستقل کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب بالعموم یہ دیا جاتا ہے کہ بعد کے ادوار میں ایسے افراد اگر نایاب نہیں تو کم یاب ضرورت تھے جو ائمہ سلف کی سی دقّت نظر اور علمی رسوخ رکھتے ہوں ۔ ان حالات میں اجتہادِ مطلق کی اجازت دینے کا مطلب دین میں بدعت و ضلالت اور تحریف و الحاد کا دروازہ کھولنا تھا۔ امت کی جماعتی اور مذہبی زندگی کی شیرازہ بندی اور اس کو مذہبی اختلاف و تشتّت سے محفوظ رکھنے کے لئے نہایت ضروری تھا کہ اجتہادِ مطلق پر روک لگائی جائے۔ عالمانِ کوتاہ نظر کے اجتہادات کی پیروی سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ ائمہ سلف کے اجتہادات کی تقلیدکی جائے، جن کے علم و عمل دونوں معتبر تھے۔ علامہ اقبال نے اپنی مشہور شعری تالیف ’’جاوید نامہ‘‘ میں اس طرزِ فکر کی حمایت کی ہے(۳)۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎ مضمحل گردد چو تقویمِ حیات ملت از تقلید می گیرد ثبات راہِ آبا رَو کہ ایں جمعیت است معنیٔ تقلید ضبطِ ملّت است در خزاں ای بے نصیب از برگ و بار از شجر مگسل بامیدِ بہار پیکرت دارد اگر جانِ بصیر عبرت از احوالِ اسرائیل گیر نقش بردل معنیٔ توحید کن چارہ می کارِ خود از تقلید کن اجتہاد اندر زمانِ انحطاط قوم را برہم ہمی پیچد بساط ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر اقتدا بر رفتگانِ محفوظ تر اس اختلاف کے پس منظر میں دیکھنا ہے کہ اس مسئلے میں حکیم الاسلام کا نقطۂ نظر کیا تھا اور مذکورہ بالا مکاتبِ فکر میں سے کس مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں راقمِ سطور نے ان کی متفرق تحریروں کو دیکھا تو جس تحریر نے دامنِ نظر کو شدت کے ساتھ اپنی طرف کھینچا وہ ان کا خطبۂ صدارت ہے جو انہوں نے ۲۶؍دسمبر ۱۹۷۶ء کو ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں منعقدہ سیمینار میں پیش فرمایا تھا۔ اس سمینار کا موضوع تھا ’’فکرِ اسلامی کی تشکیل جدید کا مسئلہ‘‘ ۔میری نظرمیں اس خطبے کی بڑی اہمیت ہے۔ اس میں فکر و دانش کے موتی جا بہ جا بکھرے ہوئے ملتے ہیں ۔ اس کی ایک ایک سطر سے عیاں ہے کہ وہ مسئلہ