حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کو دنیا میں پھیلادیا ہے۔ اسی کے طفیل آپ نے مجھے صدر بنایا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان تین روز میں انشاء اللہ آپ بڑے بڑے وعظ سنیں گے، تعارف کے لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے اور یہ کہنا بھی مناسب ہے کہ یہاں کسی پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ مخالفوں کی تردید کی جائے گی۔ امید ہے کہ تمام امور نیک نیتی پر محمول کئے جائیں گے۔ (ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ص۲۹، جنوری ۱۹۷۵ء) اجلاس کی دوسری نشست میں بعد نماز مغرب حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کا بیان تھا۔ اس اجلاس کا آغاز حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا، اسی طرح ۲۰مارچ کے اجلاس کی پہلی نشست میں بابو پیر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ سکریٹری انجمن تائید الاسلام لاہور کا بیان پہلے سے طے تھا اور آپ کا خصوصی مضمون تھا ’’ اثبات حیات مسیح علیہ السلام‘‘ اس نشست کا آغاز حضرت مولوی محمد طاہر صاحب دیوبندی کی تلاوت قرآن مجید سے ہوا۔ اس نشست میں بابو پیر بخش صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کے بعد حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسریؒ کا بیان ہوا۔ اس کے بعد پھر حضرت حکیم الاسلام رحمۃ اللہ علیہ بحیثیت مقرر کرسی پر جلوہ افروز ہوتے ہیں ۔ اس خطبہ کا اختصار ملاحظہ فرمائیے ازہر شاہ قیصر ؒ کے قلم سے تاکہ اس تاریخی خطاب کی تاریخیت و افادیت و معتبریت قلم بدلنے سے مجروح نہ ہو۔ ’’آپ نے خطبہ متضمن برحمد و صلوٰۃ کے بعد یہ حدیث شریف باتمام پڑھی بُنِیَ الْاِسْلاَمُ عَلٰی خَمْسٍ شَھَادَۃُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ الخ۔ اور فرمایا حضرات! میں مقرر کی صورت میں نہیں بلکہ ایک معمار کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہوں اور غالباً کہا جائے گا کہ اس جلسہ میں تو مرزا غلام احمد کے عقائد پرکھے جارہے ہیں تو کوئی عمارتی جلسہ نہیں ۔ ہاں ، میں دین الٰہی (ایمان و اسلام) کا ایک زبردست قلعہ بنائوں گا جس کی پناہ میں قرآن و حدیث پر کوئی حملہ نہ کرسکے، نہ کہ مرزا جی کا منارۃ المسیح یا مسجدِ نور۔ جب کوئی عمارت بنائی جاتی ہے تو اس کی بنیادیں حتی الامکان مضبوط کی جاتی ہیں ، اگر بنیادیں مضبوط نہ ہوں تو عمارت پائیدار نہیں ہوتی۔ ایسا ہی ایمان و اسلام کا ایک عظیم الشان محل ہے اور وہ یوں بنایا گیا ہے کہ لاَاِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ سے شروع کیا گیا ہے۔ یہ اس وقت بنایا گیا ہے جب کہ ظلمت و کفر کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کہا گیا ہے کہ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَبَا وَ بَیْنَکُمْ اور وہ کلمہ کیا تھا اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا۔ جب حضورؐ کی ذات پاک مبعوث ہوئی تب خدا کو تو لوگ خالق مانتے ہی تھے البتہ شرک فی العبادات