حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کرتے تھے کیوں کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہَ لہٰذا آپؐ نے سب سے اول جو دیوار اٹھائی وہ نماز ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اور پھر شرک فی الاستعانت کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اب چاہتے کہ ہم سب مل کر ستون دین کو استوار کریں ۔ اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنَ۔ دوسری دیوار زکوٰۃ اور تیسری صوم اور چوتھی حج بیت اللہ شریف، گویا چاروں دیواریں قائم کردیں ، ہاں وہ دن آنے والا ہے کہ ہم کو یہ قلعہ جس کی نہ اس وقت بنیاد نہ دیوار نظر آتی ہے سب کچھ نظر آنے لگے گا۔ اس کے بعد حدیث بیان فرمائی کہ قیامت میں کوئی محلات نہیں بلکہ جو کچھ خود کروگے وہی تم کو ملے گا۔ آپ اپنے لئے خود محلات یہاں تعمیر کرسکتے ہیں میں یہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کرتا ہوں ۔ شرح الصدور میں ہے اِنَّمَا النَّاسُ نَیَامٌ اِذَا مَاتُوْا اِنْتَھَبُوْا یعنی لوگ سوئے پڑے ہیں جب مریں گے تو متنبہ ہوں گے۔ دنیا کے اموال، مکانات وغیرہ جو دکھائی دیتے ہیں سب خواب کی مثال ہیں ، جیسے کوئی خواب دیکھتا ہے لیکن ایسے شخص کو اگر ہتھکڑی ڈال کر جیل بھیج دیا جائے تو اس خواب کا کیا اسے کچھ لطف آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں ! لہٰذا جس عمارت کا نقشہ میں آپ کے سامنے کھینچ رہا ہوں اس کا انتظام کر لیں اور حسنِ عمل سے مدد کریں گو ایسا کرنے سے تکالیف اور مصائب کا آنا لازمی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کہا جائے گا سَلاَمٌ عَلَیْکُم ْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ سو یہ چند منٹ کی بات ہوتی ہے اس کے بعد سب کچھ نظر آجاتا ہے یعنی بعد موت کے۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ جنت کی بابت کہا جاتا ہے بہشت اتنا بڑا کیسے ہو سکتا ہے؟ اسے عام فہم بنانے کے لئے ایک بچے کی مثال بیان کی جو رحم مادر میں ہے اور اسی کی وسعت اورخوبی کی تعریف کرتا ہے، باوجودیکہ اس کی غذا خون ہے مگر جب دنیا میں آکر اپنے ہی مکانات کو دیکھ پاتا ہے تو ان سے زیادہ وسیع اور بہتر دوسری جگہ کو نہیں سمجھتا، فاضل مقرر نے اس وقت مولانا جامیؒ کا ایک شعر پڑھ کر بتایا کہ وہ اس شخص کو اپنے گھر سے باہر جانے کی ترغیب دیتے ہیں کہ قادیان، بٹالہ گورداس پور، لاہور، امرتسر وغیرہ وغیرہ شہروں میں جا کر دیکھیں کہ دنیا کی کیا حالت ہے؟ جب وہ گھر سے نکل کر دوسرے شہروں کی سیر کرتا ہے تب اس کی آنکھ کھلتی ہے اور معلوم کرتا ہے کہ دنیا اس سے بہت بڑی ہے جو کچھ میں سمجھا ہوا تھا، اس کے بعد اس سے کہا جاتا ہے کہ ایک عالم اس سے بھی بڑا ہے اور وہ مَالاَ عَیْنٌ رَأتُ وَ لاَ اُذُنٌ سَمِعَتُ تب اس کو کہا جاتا ہے کہ پہلے تم ہمارا کہا نہ مانتے تھے جو اب ماننا پڑا۔ لہٰذا اب تم کو حضرت رحمۃ للعالمین کا فرمان بھی ماننا چاہئے یعنی یہ کہ بہشت ایک بہت بڑا وسیع عالم ہے۔