حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
روپئے تھے اس نے دس روپئے کا تو بازار سے سودا خریدا اور تیس روپئے کسی چور نے چرا لئے۔ اب وہ اپنے نقصان پر روتا چلاتا ہے تو اسے یہ کہے جانا کہاں تک حق بجانب ہے کہ تیس روپیوں کے لئے پہلے تو نہ روتا تھا اب کیوں روتا ہے؟ ارے بھائی پہلے تو روپئے اس کے پاس تھے تو رونے چلانے کی ضرورت نہ تھی۔ اب جب غریب کی چوری ہوگئی تو رونے چلانے اور تلاش کی ضرورت لاحق ہوئی۔ فاضل مقرر نے ایسے ہی اور ایک مثال دی کہ کسی کا لڑکا مکان کی چھت سے گر کر بیہوش ہوگیا، تھوڑی دیر غش میں رہا، بولا نہیں ، لیکن جب ذرا رویا تو اس کے والدین یہ معلوم کرکے خوش ہوئے کہ غنیمت ہے کہ مرا تو نہیں ، اگر چہ اس کو چوٹیں آئی ہیں پر مرنے سے ہزار درجہ بہتر ہے کہ اس رونے سے اس کی زندگی کا تو ثبوت ملتا ہے۔ ہمارے رونے کا بھی یہی نتیجہ سمجھو اور غنیمت جانو کہ ہم رو چلا کر اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ علیٰ ہٰذا ایک تیسری مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ: جھاڑو گھر صاف کرنے کو ہوتی ہے بشرطیکہ قوی رسی سے خو ب باندھا گیا ہو، ورنہ کھلی تلّیاں چاہے کتنی زیادہ ہوں بے کارہیں ۔ لہٰذا خلیفہ بجائے رسی کے ہے جس سے مسلمان بندھے رہتے ہیں اور ان کی قوت یک جا ہو کر جھاڑو کی تلّیوں کی طرح مفید پڑتی ہے۔ اجلاس عام کی پہلی نشست ۱۹؍مارچ میں بعد نماز ظہر منعقد ہوئی۔ اجلاس عام کا نقشہ اور مولانا محمد طاہر صاحبؒ فرزند اصغر حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒسابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کی تلاوت اور صدر جلسہ کی تقریر کا خلاصہ نقل کرتے ہوئے مولانا ازہر شاہ قیصر تحریر فرماتے ہیں : ’’کھانا کھانے اور نماز ظہر سے فارغ ہونے کے بعد علماء کرام جلسہ گاہ میں تشریف لائے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے بمشکل اسٹیج تک رسائی ہوئی۔ قاری عبدالکریم صاحب امرتسری نے قرآن کریم کا رکوع نہایت موزوں لہجے میں پڑھا اس کے بعد بہ تجویز قاضی ظفرالحق صاحب امام جامع مسجد بٹالہ اور بتائید جمیع حاضرین حضرت مولانا حبیب الرحمن نائب مہتمم مدرسہ دارالعلوم دیوبند صدر قرار پائے۔ بعد تقرر صدر جناب قاری محمد طاہر صاحب دیوبندی نے رکوع ’’وَاِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اَئَ نْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَ اُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘ بہترین لہجہ میں پڑھا، ان کے بعد صدر نے حمد و صلوٰۃ پڑھ کر فرمایا: یہ پہلا موقع ہے کہ میں ان متبرک صورتوں کے سامنے اللہ اور رسول کے احکام سنانے کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔ لہٰذا اس نعمت خداوندی کا میں جس قدر بھی شکریہ ادا کروں کم ہے۔ میں خود کچھ بھی نہیں مگر ایک ایسی جگہ ’’دیوبند‘‘ کی طرف منسوب ہوں جسے دنیا بھر کا مرکز علم تسلیم کیا گیا ہے، میں خود کوئی کمال نہیں رکھتا مگر اس جگہ سے آیا ہوں جس نے فیوض علمی