حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ہوچکے تھے۔ ڈاکٹروں نے بولنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ ڈاکٹروں کے حکم سے آپ کے کمرے کے دروازہ پر بھی ہسپتال کی جانب سے لکھ دیا گیا تھا’’گفتگو کرنا منع ہے‘‘۔ بہرحال اس وفد نے حضرت کی عیادت فرمائی۔ حکیم صاحب سے کچھ مختصر گفتگو بھی ہوئی۔ اسی اثناء میں آپ کی پوتی اورحضرت مولانا محمدسالم صاحب مدظلہ آگئے، تو حضرت ان سے گفتگو کرنے لگے کہ اتنے میں ایک ’’نرس‘‘آئی اور اس کا منشا یہ تھا’’کہ آپ گفتگو نہ کریں ‘‘اور حضرت کو مخاطب کرکے کہنے لگی۔ ’’کہ آپ کے روم پربھی لکھا ہوا ہے کہ بات کرنا منع ہے‘‘۔ اس پر حضرت مہتمم صاحبؒ نے برجستہ کہا ’’کہ وہ میرے لیے نہیں بلکہ آنے والے کے لیے ہے‘‘۔ آپ شادی میں ہوتے یا غمی میں تکلیف میں ہوتے یا راحت میں مگر زائرین کوکبھی احساس نہ ہونے دیتے بلکہ اپنی طویل گفتگو اور حکیمانہ باتوں سے ان کی دلجوئی فرماتے۔ تفکرات کا آپ پرکتنا ہی ہجوم ہوتا۔ہموم وغموم کی کتنی ہی یورش ہوتی مگر عالم یہ تھا کہ تبسم زیر لب۔ غالباً اردو کے کسی شاعر نے آپ ہی کے بارے میں کہا تھا۔ کانٹوں میں ہے گھرا ہوا چاروں طرف سے پھول پھر بھی کھلا ہی پڑتا ہے کیا خوش مزاج ہے سَن تو مجھے یاد نہیں ہاں البتہ مادرعلمی دیوبند میں زمانہ طالب علمی تھا کہ حضرت حکیم الاسلام ؒ حج بیت اللہ سے تشریف لائے۔ آپ کی زیر صدارت تحتانی دارالحدیث میں ’’جمعیۃ الطلبہ‘‘کی جانب سے ایک جلسہ منعقد کیا گیاجس میں آپ نے تقریر فرمائی اور اپنے سفر حج کے حالات بتلائے۔ منجملہ ان واقعات کے آپ نے فرمایا: ’’کہ ایک روز میں مسجد حرام میں بیٹھا ہوا اپنے معمولات میں مشغول تھا اور کثیر تعداد میں زائرین حج تشریف فرماتھے کہ اچانک ایک سائل آیا اور عاجزی وانکساری کے لہجہ میں سوال کرنے لگا اور پھر وہ غائب ہوگیا تو میں نے عرض کیا ہم سب کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہئے حق تعالیٰ نے اس شخص کو بھیج کر ہم کو متنبہ کیا ہے کہ یہاں جس قدر بھی عاجزی وانکساری اختیار کروگے اسی قدر ملے گا،خاموش رہنے سے کوئی اپنی مراد کو نہیں پہنچتا ہے سائل جب تک سوال نہیں کرتا تو اس وقت تک اس کی جھولی میں بھیک نہیں ڈالی جاتی تو ظاہر ہے ایسے ہی جب تک اللہ کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار نہیں ہوگا اس سے مانگا نہ جائے