حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’پان مفرح قلب ہے اورحضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ نے تو اس کو کھانے کی مسواک کہا ہے۔اور مجھے تو پان بھی کھانانہیں آتا تھا حضرت مدنیؒ نے سکھادیا‘‘۔ اس پر سلسلہ ٔ سخن درازکرتے ہوئے میں نے دبے الفاظ میں عرض کیا کہ سنا گیا ہے کہ مدنی رحمۃ اللہ علیہ تو آپ کا بیحد احترام فرماتے تھے۔جواباً ارشاد فرمایا: ’’جی ہاں بظاہر تو کوئی خوبی اس وقت نہ تھی اور نہ اب ہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ علامہ انور شاہ کشمیری اور حضرت مولانا مدنیؒکی تربیت میری والدہ نے کی ہے اوریہی وجہ تھی کہ یہ دونوں بزرگ میرے اہل خانہ کا بہت احترام کرتے اور حضرت مدنی ؒ نے تو بارہاعجز وانکساری کے لہجہ میں ارشاد فرمایا کہ میں اس در کا کتّاہوں اور وہ مجھ سے بہت محبت وشفقت کا معاملہ کرتے چناں چہ پاکستان سے جب میں دوبارہ دارالعلوم میں حاضر ہوا تو مولانا مدنیؒ نے بے ساختہ مجھ سے فرمایا’’کہ آپ دارالعلوم کے محتاج نہیں ہیں دارالعلوم آپ کا محتاج ہے۔ توظاہر ہے یہ سب ان کی شفقت اور رحمت ہی تھیں ۔ تبدیل موضوع اختیار کرتے ہوئے دوسرا میرا سوال یہ تھا کہ حضرت کافرین کو دنیا میں راحت وآرام اور مؤمنین کے لیے سوائے مصائب وآلام کے کچھ نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ توآپ مسکراتے ہوئے فرمانے لگے اس میں کیا حرج ہے۔ بظاہر تو اس میں کوئی نقصان ہے نہیں ۔ حق تعالیٰ کی حکمت اسی میں ہے اور اسی میں بندہ کو راضی رہنا چاہئے۔ پھر اپنے مخصوص حکیمانہ انداز میں فرمایا۔ ’’کہ دراصل صورت ایسی ہے کہ انسان کو حق تعالیٰ نے دوقسموں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک کافر، دوسرے مومن اور زندگی بھی حق تعالیٰ نے دوہی رکھی ہیں ایک دنیا کی اور دوسرے آخرت کی۔ تودنیا کی راحتیں کافر کو عطا کیں اورآخرت کی مومنین کواگر کافر کو دنیا کی نعمتیں نہ دی جاتیں تو وہ بے چارہ محروم رہتا آخر کار وہ بھی تو اللہ کی مخلوق ہے اور آخرت کی نعمتوں سے اس کو محروم رکھاجائے گا بخلاف مومنین کے کہ ان کو آخرت سے سرفراز کیا جائے گا‘‘ حضرت حکیم الاسلام ؒ دہلی کے ’’پنتھ ہسپتال‘‘میں زیرعلاج تھے۔ میرٹھ سے ایک وفد حضرت حکیم محمداسلام صاحبؒ کی قیادت میں دہلی پہنچا جس میں حکیم محمد الیاس صاحب کٹھوڑوی کے علاوہ مولانا عبد الستار صاحب مدرس مدرسہ نورالاسلام اوردیگر احباب بھی شریک تھے اور یہ بندہ بھی۔آپ کافی لاغر اور کمزور