حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ’’دیوبند‘‘کے ایک مقامی اخبار نے کچھ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف لکھ دیا اخبار کا اڈیٹر اغیار کے ہاتھوں بری طرح بک گیا تھا اورکچھ وہ اپنی عادت سے بھی مجبور تھا’’جبل گردد وجبلت نہ گردد‘‘اس کا اثریہ ہوا کہ دیوبند کی عوام بگڑ گئی اور عمائدین شہر اور علماء کی ایک خاص جماعت حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اجازت چاہی کہ اخبار کے ایڈیٹر کو کوئی ایذا پہنچائی جائے یا اس کے پریس کو خرد وبرد کیاجائے تو حضرت نے بڑی سنجیدگی اورمتانت کے لہجہ میں فرمایا’’مجھے برا بھلا کہنے سے یا لکھ دینے سے اگر کسی کی روٹیاں سیدھی ہورہی ہوں تو تمہارا کیا حرج ہے۔ حاضرین آپ کا یہ جملہ سن کر انگشت بدنداں رہ گئے اور آگے کچھ کہنے کی جرأت بھی نہ ہوئی۔حقیقت یہ ہے کہ آپ کے یہاں غیبت اور بغض وعناد نام کا بھی نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے متوسلین بھی صالح اور راسخ العقیدہ نظر آتے ہیں اور آپ کا یہ ولی اللٰہی رنگ آپ کے خلفاء اور معتقدین میں بھی ملتا ہے اور اس کی مثال میرے کرم فرما سیدی حضرت مولانا حکیم محمد اسلام صاحبؒجو حضرت کے خلیفہ اورجامعہ عربیہ نورالاسلام میرٹھ کے سربراہ اورمہتمم تھے۔ ان کی عالی ظرفی اورحلم وبردباری سے کون انکار کرے گا جن لوگوں نے حکیم الاسلامؒ صاحب کو دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اس دور میں حکیم صاحب اسلاف کی نشانی، تواضع عجز وانکساری اور رافت ِ قلبی کا ایک بہترین نمونہ تھے کبھی کبھی اپنی مجالس میں فرماتے تھے: ’’کہ اپنے پاس کچھ نہیں ہے جو کچھ ہے وہ حضرت مہتمم صاحبؒ کی جوتیوں کا صدقہ ہے‘‘۔ کون نہیں جانتا کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ کی علمی وروحانی شعائیں عرب وعجم اور ہندو پاک کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی پھیلی ہوئی ہیں اور آپ کے مستفیضین کی تعداد شمار وحساب سے خارج ہے یہ اگر آپ کی زندہ کرامت نہیں تو اور کیا ہے؟ وہ جنید ِ دورِ حاضر وہ طریقت کا امام وہ زمانہ کا غزالی فخرِ رازی، نیک نام آپ کے یہاں آیات کتاب اللہ واحادیث نبویہ کی تشریحات دلائل اور دلنشیں انداز میں اور شرعی مسائل واحکام کی علّتیں بکثرت ملتی ہیں ۔ ایک بار حضرتؒ میرٹھ تشریف لائے’’خیر نگر‘‘میں حکیم محمد ادریس صاحب کے یہاں قیام تھا معلوم ہونے پریہ راقم بھی حاضر خدمت ہوا۔ حضرت ایک رسالہ کے مطالعہ میں مشغول تھے۔سلام ومصافحہ کے بعد برابر کی چارپائی پر بیٹھ گیا اور یہ فکر سوار ہواکہ آغاز ِ سخن کس طرح کروں تاکہ کچھ استفادہ ہوسکے۔ تھوڑی دیر کے وقفہ کے بعد میں نے حضرت کی جانب پان بڑھایا تو حضرت نے پان قبول کرتے ہوئے فرمایا :