حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلامؒ نے مخالف فرقوں کی تردید کو اپنی تقریر کا موضوع کبھی نہیں بنایا لیکن نہ جانے کتنے بھٹکے ہوئے لوگوں نے ان کے مواعظ سے ہدایت پائی اور کتنے غلط عقائد و نظریات سے تائب ہوئے۔ لاہور میں ایک صاحب علماء دیوبند کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ سے بہت متاثر اور علماء دیوبند سے بری طرح برگشتہ تھے۔ طرح طرح کی بدعات میں مبتلا بلکہ ان کو کفر ایمان کا معیار قرار دینے والے اتفاق سے حضرت حکیم الاسلامؒ لاہور تشریف لائے اور وہاں ایک مسجد میں آپ کے وعظ کا اعلان ہوا۔ یہ صاحب خود سناتے ہیں کہ میں اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ ان کے وعظ میں اس نیت سے پہنچا کہ انہیں اعتراضات کا نشانہ بنائوں گا اور موقع ملا تو اس مجلس کو خراب کرنے کی کوشش کرونگا۔ لیکن اول تو ابھی تقریر شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کا معصوم اور پرنور چہرہ دیکھ کر ہی اپنے عزائم میں زلزلہ سا آگیا۔ دل نے اندر ہی گواہی دی کہ یہ چہرہ کسی بے ادب، گستاخ یا گمراہ کا نہیں ہو سکتا۔ پھر جب وعظ شروع ہوا اور اس میں دین کے جو حقائق ومعارف سامنے آئے تو پہلی بار اندازہ ہوا کہ عالم دین کسے کہتے ہیں ؟ یہاں تک کہ تقریر کے اختتام تک میں حضرت حکیم الاسلامؒ کے آگے موم ہوچکا تھا۔ میں نے اپنے سابقہ خیالات سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے بزرگان دین کے بارے میں ایسی بدگمانیوں سے نجات عطا فرمائی۔ برصغیر کا تو شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو کہ جہاں حکیم الاسلامؒ کی آواز نہ پہنچی ہو۔ اس کے علاوہ افریقہ، یورپ اور امریکہ تک آپ کے وعظ و ارشاد کے فیوض پھیلے ہوئے ہیں اور ان سے نہ جانے کتنی زندگیوں میں انقلاب آیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا منصب اہتمام کوئی معمولی چیز نہ تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ نے پچاس سال سے زائد اس منصب کی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔ اس دوران دارالعلوم پر نہ جانے کتنے کٹھن اور نازک دورآئے، لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ نے ان تمام جھمیلوں کو نمٹایا اور اپنی ساری زندگی دارالعلوم کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ سخت سے سخت مرحلوں پر بھی انہیں پرسکون ہی دیکھا۔ اجلاس صدسالہ کا ہنگامہ دارالعلوم کے منتظمین کے لئے ایک کڑی آزمائش کی حیثیت رکھتا تھا۔ دیوبند جیسی مختصر جگہ میں لاکھوں افراد کے اجتماع کا انتظام انتہائی مشکل کام تھا۔ کوئی اور ہوتا تو اس موقع پر اس سراسیمگی سے نجات حاصل نہ کر سکتا۔ لیکن ٹھیک اجلاس کے افتتاح کے روز حضرت حکیم الاسلامؒ کے پاس حاضری ہوئی تو حسب معمول انہیں متبسم اور پرسکون دیکھا۔ چہرے پر تھکن ضرور تھی لیکن گھبراہٹ اور پریشانی نام کو نہ تھی۔ افسوس ہے کہ اجلاس صد سالہ کے بعد دارالعلوم دیوبند میں باہمی اختلافات نے جن ہنگاموں کی شکل اختیار کی انھوں نے ماضی کے تمام ہنگاموں کو مات کر دیا۔ دور ہونے کی وجہ سے ہمیں تمام حالات و