حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آپ ہی کے مکان سے متصل منشی بشیر احمد صاحب مرحوم کے مکان میں کھانا کھلایا۔ مکان دیکھ کر مکینوں کی یاد تازہ ہوگئی اور دیر تک اس تصور میں استغراق رہا۔‘‘ یہ لکھنے کے بعد حضرت حکیم الاسلامؒ نے متمم بن نوئیرہ کے ان اشعار سے تمثل فرمایا کہ: وکنا کند مانی جدیمۃ حقبۃ من الدھر حتی قیل لن یتصدعا فلما تفرقنا کانی وما لکا لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا قیام پاکستان کے بعد بارہا حضرت حکیم الاسلامؒ کراچی تشریف لا ئے، اور یہ ممکن نہیں تھا کہ کراچی تشریف لانے کے بعد آپ دارالعلوم تشریف نہ لائیں ، چنانچہ ہربار خدام دارالعلوم کو اپنی شفقتوں سے بہرہ ور فرماتے طلباء اور اساتذہ سے خطاب بھی ہوتا۔ اور پھر حضرت والد صاحبؒ اور ان کے درمیان جو باغ و بہار مجلس ہوتی اس میں علمی تبادلہ خیال کے علاوہ ماضی کے تذکرے زمانہ طالب علمی کی یادیں ، اساتذہ کے واقعات اور نہ جانے کتنے موضوعات پر گفتگو ہوتی اور ہم خدام کو افادات کا نہ جانے کتنا خزانہ ہاتھ آجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت حکیم الاسلامؒ کو تصنیف اور خطابت دونوں میں کمال عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ انتظامی مشاغل کے ساتھ سفروں کی کثرت تھی اور یہ سفر حضرتؒ کی زندگی کا جز ولازم بن کر رہ گئے تھے۔ حساب لگایا جائے تو عجب نہیں کہ آدھی عمر سفر ہی میں بسر ہوئی ہو، لیکن حیرت ہے کہ اتنی مصروفیات کے باوجود آپ تصنیف و تالیف کا وقت نکال لیتے تھے۔ چنانچہ آپ کی دسیوں تصانیف آپ کے بلند علمی مقام کی شاہد ہیں اور ان کے مطالعہ سے دین کی عظمت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جہاں تک وعظ و خطابت کا تعلق ہے اس میں تو اللہ تعالیٰ نے حضرتؒ کو ایسا عجیب و غریب ملکہ عطا فرمایا تھا کہ اس کی نظیر مشکل سے ملیگی۔ بظاہر تقریر کی عوامی مقبولیت کے جو اسباب آج کل ہوا کرتے ہیں حضرت حکیم الاسلامؒ کے وعظ میں وہ سب مفقود تھے۔ نہ جوش و خروش نہ فقرے چست کرنے کا اندازہ، نہ پرتکلف لسانی، نہ لہجہ اور نہ ترنم اور نہ خطیبانہ ادائیں لیکن اس کے باوجود وعظ اس قدر موثر دلچسپ اور مسحور کن ہوتا تھا کہ اس سے عوام اور اہل علم دونوں یکساں طور پر محظوظ اور مستفید ہوتے تھے۔ مضامین اونچے درجے کے عالمانہ اور عارفانہ لیکن الفاظ و معانی کی ایک نہر سلسبیل تھی جو یکساں روانی کے ساتھ بہتی اور قلب و دماغ کو نہال کر دیتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منہ سے ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے موتی جھڑ رہے ہیں ۔ ان کی تقریر میں سمندر کی طغیانی کے بجائے ایک باوقار دریا کا ٹھہرائو تھا جو انسان کو زیر و زبر کرنے کے بجائے دھیرے دھیرے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا تھا۔