حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اسلام کا مقصد مسلمانوں کو مصنوعی معیاروں خواہ وہ قوم و وطن کی شکل میں ہوں یا رنگ و نسل کی صورت میں ، ان سب چھوٹے اور داغدار معیاروں سے نکال کر انہیں عالمیت اور اجتماعیت کبریٰ کی طرف لے جانا ہے۔ اُن کا داعیانہ کردار ہی انہیں عزت و شوک اور آقائی عطا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس لئے انہیں نہ صرف اس کردار کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہے بلکہ انہیں اُن طاغوتی اور صیہونی سازشوں سے بھی باخبر رہنا ہے جو اُن کے خلاف عالمی پیمانے پر جاری ہیں ۔ اسی صیہونی سازش سے کم و بیش نصف صدی پہلے حکیم الاسلامؒ نے عالمِ اسلام کو باخبر کیا تھا۔ اُن کی حیات کے آخری حصہ میں یہود و نصاریٰ نے قبلہ اول پر قبضہ کرکے عالم اسلام کی جس انداز سے دل آزاری کی اُس نے حکیم الاسلامؒ کی بصیرت اور معاملہ فہمی کو پوری طرح ثابت کردیا۔ حکیم الاسلامؒ نے صیہونی سازش سے عالمِ اسلام کو اس انداز سے خبردار کیا تھا۔ ’’اندیشہ ہے کہ یہ تین و زیتون کا مقدس شہر خاکم بدہن صیہونیوں کے دست برد کے نیچے نہ آجائے جس کے لئے سازشوں کا جال بچھا ہوا ہے اور مسلمانوں کی عالمی سیاست ایک خواب و خیال ہو کر نہ رہ جائے اور پھر اس بے دست و پائی کے نتیجہ میں طور سینا کی وادیاں بھی کہیں خطرہ میں نہ پڑجائیں جن کا کچھ حصہ غزہ سے آگے کا ہاتھوں سے نکل بھی چکا ہے اور دشمن عین غزہ کے سر پر بیٹھا ہوا ہے۔ اسے تاک رہا ہے۔ اگر مصر نے اس طرف دھیان نہیں دیا اور اس مقام کی دینی نوعیت کو سامنے رکھ کر جو اسلام نے اسے بخشی ہے محفوظ نہ رکھا تو اندیشہ ہے کہ صیہونی دسترس میں اس پر رکی نہ رہے گی جس پر آج رکی ہوئی ہے۔‘ ‘ حکیم الاسلام علیہ الرحمہ نے یہ تحریری پیشین گوئی آج سے کم و بیش چالیس سال پہلے کی تھی جو حکمرانوں کی بے حسی، امریکہ کے تسلط اور عرب ممالک کے عدم اتحاد کے سبب آج بہت حد تک پوری ہوچکی ہے۔ اس سے مصنف کی دوربینی و دوراندیشی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ موجودہ حالات اور ان کے اسباب نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ میں پائی جانے والی بے چینی و تشویش کو سامنے رکھ کر کتاب کا درج ذیل پارۂ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ’’صیہونی جغرافیہ میں مدینہ اور خیبر کو بھی دشمن نے شامل کر رکھا ہے۔ گویا بیت اللہ مقدس پر بھی دشمنوں کی کڑی نظر ہے جس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ شام، اقصیٰ اور مصر، غزہ کے کنارے تک دشمن کے ہاتھ میں اور حجاز مدینہ و خیبر تک دشمن کی نظر میں ہے تو کیا یہ مسلمانوں کی غیرت ملی کے لئے مہمیز نہیں ہے اور کیا اس کے بعد بھی اس مہلک بیماریوں کے علاج کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ حکیم الاسلام علیہ الرحمہ نے صرف اس مہلک بیماری کی ہی نشان دہی نہیں کی ہے بلکہ اس کا علاج بھی