حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
آگے فرماتے ہیں کہ ’’حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کرتے ہوئے بالہام خداوندی حق تعالیٰ سے جو دعا مانگی تھی اس میں پہلی التجا تو یہ تھی کہ اے پروردگار اولادِ ابراہیم و اسماعیلؑ میں ایک عظیم رسول مبعوث فرمایا اور اسے وہ قانون عطا فرمایا جس کے الفاظ میں وحی ہوں کہ ان کی تلاوت کی جائے اور ان میں ایک امت مسلمہ برپا کر اور اسے اس عالمی مرکز کعبۂ مقدسہ کے حقوق و مناسک (حج بیت اللہ) عالمی انداز سے کرنے کی توفیق عطا فرما کہ لوگ اطراف عالم سے اس کی طرف رجوع کریں اور اس مرکز سے توحید و اتحاد کا سبق لے کر اسے عالمی کر دکھلائیں ۔ (۵) اس کے بعد آپ نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ مومنانہ فراست کا حامل ہے۔ فرماتے ہیں : ’’پس اس طرح دنیا کے انسان امام الناس خلیل رب العالمین کی امامت کے مقتدی بن گئے اور جس مسجد مقدس سے اس امامت و اقتداء کا ظہور ہوا وہ کعبۂ مقدس تھا جس سے اس بیت کریم کی عالمی مرکزیت بااندازۂ خلیلی، بہ منشادِ خدا وندی روزِ روشن سے زیادہ واضح ہوگئی اور ساتھ ہی اس امتِ مسلمہ کی عالمیت اور اس کے مقاصد کی آفاقیت و ہمہ گیری کے اس عالمی مرکز سے وابستگی بھی نمایاں کردی گئی۔ ’’اسی طریقہ پر مقاماتِ مقدسہ کے معیار سے عالمی تعمیر دفاع کی شرعی صورتوں کو جس انداز سے بیان کیا ہے اُس کا حق میں حکیم الاسلامؒ کوہی پہونچتاہے۔ آپ نے اس موقع پر دین و سیاست کو جمع ہی نہیں کیا بلکہ سیاست کو دین میں سمو کر ہر ایک کو مستقل ایک ایک بنیادی اور مرکزی حیثیت دی ہے۔ عبادت کو ہم اور اولین مقصد قرار دے کر حجاز مقدس کو اس کا مرکز بتایا ہے سیاست و شوکت کو دین میں بنیادی حیثیت دے کر اس کا مرکز شام کو بتلایا اور عسکریت اور فوجی قوت کو اہم مقصد بتلا کر مصر کو اس کا مرکز قرار دیا اور پھر ان تینوں مرکزیتوں کو اپنی اپنی مرکزیتوں پر رکھنے کے لئے ایک مرکز المراکز عالمی نظام اجتماعیت قائم کرکے اس کا نام خلافت رکھا تاکہ اس بین الاقوامی و بین الاوطانی نظام سے جہاں ان تینوں مرکزوں کی مرکزی برکات عالم میں پھیلی رہیں ۔ دنیا کی ساری طاقتیں اور ساری اقوام بھی ایک نظام میں منسلک ہو کر حقیقی انسانیت کو نمایاں کرسکیں ۔‘‘ اسلام میں سیاست سے کیا مراد ہے؟ اس کی تشریح بھی آپ نے اس انداز سے فرمادی ہے ’’حقیقی سیاست وہی ہو سکتی ہے جس میں عقل و تدبر اور اخلاص کے ساتھ دنیا کو باہم ملانے اور خلوص کے ساتھ اقوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہو اس لئے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو وہ دینی اور دیانتی سیاست صرف اسلامی ہی ہے جس کا نمونہ اسلام نے دنیا کے سامنے نہ صرف نظری طور پر رکھا بلکہ اس دار دنیا کی کتنی ہی متضاد انواع کی قوموں کو نظام کی ایک لڑی میں پرو کر دکھلا دیا جس سے کسی قوم کو انحراف نہیں ہوا۔‘‘