حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’تشویش یہ ہے کہ ان مخصوص مقدس خطوں کی آزادی اور ان کی حفاظت و صیانت کے بارے میں اندازِ فکر کیا ہوگا اور وسائل کار کیا اختیار کئے جاتے ہیں ۔ سو جہاں تک میری محدود معلومات کا تعلق ہے اب تک اس سلسلے میں جتنے بھی افکار اور جتنے بھی دعوے یا نعرے سامنے آئے ہیں وہ اکثر و بیشتر وطن اور جغرافیائی یا رائج الوقت سیاسی انداز ہی کے محسوس ہوئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حقیقی نقطہ اس بارے میں آج کے مروجہ سیاست کا ہے نہ کہ آج کے وطنی ڈھنگ کا بلکہ خالص مذہبی اور شرعی انداز کا ہونا چاہئے۔ محض پارٹی سیاست یا وطنی حدبندیوں اور قومی اقتدار کے نام پر اگر یہ جذبات ابھریں گے تو ان سے ان مرکزیتوں کے تحفظ اور استحکام کا مقصد کبھی پورا نہیں ہو سکتا جس سے یہ مقامات بالاتر کو دینی نقطۂ نظر سے پیش کیا ہے کسی سیاسی منصوبے کے انداز سے نہیں ۔ ممکن ے کہ اس دورِ وطنیت پرستی میں اسے رجعت پسندی یا تنگ خیالی کا طعنہ دے کر اس کی اہمیت گھٹا کی جائے لیکن میرے خیال میں اس سے بجائے مرعوب یا خجل ہونے کے ہمیں اس رجعت پسندی کا خیر مقدم کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ شرعیات کی بناء عقلی اختراعات نہیں بلکہ نقلی روایات پر ہے، اندریں صورت جب کہ ان مقامات کی تقدیس کی بنیاد ہی نقولِ مذہب پر ہے۔ عقلی اختراعات پر نہیں تو اُن کی حفات بھی علانیہ شرعی منصوبوں اور مذہبی دعووں کے ساتھ ہی ہو سکتی ہے۔ درج بالا سطور میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ انتہائی اختصار کے ساتھ اس کتاب کے موضوع کی تجزیہ کی طالب علمانہ کوشش ہے جہاں تک حضرت حکیم الاسلامؒ کی سخن سنجی و نکتہ آفرینیوں کا تعلق ہے ا س کی اہمیت بھی مسلمات میں سے ہے۔ سینکڑوں قرآنی آیات اور متعدد احادیث مبارکہ کے استشہاد، اس کتاب کا اندازِ تحریر فلسفہ اور جدید سائنسی توضیحات کی روشنی میں بات کرنے والے ترقی پذیر دانشوران کے لئے بھی نسخۂ سعادت سے کم نہیں ۔ حضرت والا نے حالات و واقعات سے جس طرح نتائج اخذ کئے ہیں وہ ان کے انتہائی عمیق و وسیع مطالعہ کی دلیل ہونے کے علاوہ اردو نثر کا بہترین شاہکار ہیں ۔ بطورِ مثال درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیے۔ ’’کعبۂ مقدس کی مرکزیت کے سلسلے میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے دعوت ابراہیمی کو عالمی انداز میں پھیلانے کی جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ قدس اقصیٰ یعنی فلسطین اور شام سے نہ تھیں کیوں کہ مؤخرالذکر علاقہ زرخیز، باغ دراغ، میووں ، پھلوں کا مخزن، نہروں او رمیٹھے پانیوں کا چرچشمہ تھا جب کہ ارضِ حجاز بے آب و گیاہ ملک تھا جس میں نہ باغ دراغ تھا نہ گلشن و چمن نہ پھول پھول تھے اور نہ میوے اور نہریں ، نہ ندیاں تھیں ، نہ کھیتی باڑیاں ، نہ صنعت و حرفت نہ دستکاری، اسی لئے سادگی، جفاکشی اور قناعت ان کا منقار تھا۔ تصنع اور بناو سے کوسوں دور ایسے مقام پر تھے کہ گر ان نفوس کو صحیح تربیت سے درست کردیا جائے تو آفاقی اور بیرونی کوئی سبب ایسا تھا ہی نہیں کہ ان کے ترقی پذیر عزائم میں حارج ہو۔‘‘ (۴)