حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
و نماز کے فرائض ادا کریں ۔ غرض تعیینِ کعبہ، وضعِ کعبہ، صورتِ کعبہ، بنائے کعبہ اور حقیقت کعبہ میں سے کسی ایک چیز میں بھی انسانی اختراع یا ایجاد کا دخل نہیں رکھا۔‘‘ پیش نظر مضمون کے تعلق سے حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی علمی و فنی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خلاصۂ بحث بذاتِ خود اتنے مباحث پر مشتمل ہے کہ اسے کتاب کا آٹھواں موضوع قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ اس موضوع میں تینوں مقاماتِ مقدسہ میں ظاہر تجلیات کے مواقع و نزول کی تخصیص پر بحث کے علاوہ کعبۂ مقدسہ کو دنیا کا مرکز دائرہ کی شکل میں پیش کیا ہے۔ پھر دائرہ کی جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ جس طرح وجود میں آتا ہے اُس کے درج ذیل چھ دلائل پیش کرکے فی الحقیقت کعبۂ مقدسہ کو دنیا کا مرکز ثابت کیا ہے۔ ۱-دائرہ میں مرکز کا وجود سب سے پہلے ہونا۔ ۲-مرکز کا دائرے کا وسطِ حقیقی ہونا۔ ۳-مرکز کا دائرے کا اصل ہونا۔ ۴-مرکز میں افادیت کی شان ہونا۔ ۵-دائرے کی کسی بھی حرکت کا مرکز سے باہر ہونا۔ ۶-فطری طور پر مرکز میں سکوت ہونا۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں مصنف نے کعبہ کو مرکزِ عالم، جمع کائنات، وسط عالم، زمینی مخلوقات کی اصل اور پھر مرجعیتِ کعبہ کو بھی ثابت کیا ہے۔ اس سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ کعبہ قبلۂ عبادت ہے اور بیت اللہ ہی عالمی قبلہ ہے۔‘‘ نواں موضوع کعبۂ مقدسہ کی افادیت پر مشتمل ہے۔ اس کے مشتملات میں کعبہ میں پایا جانے والا امن و سکون اور اس کے عقلی اصول فراہم کرکے اقصیٰ اور طور کو بھی وسطِ عالم میں شمار کیا ہے اور پھر ان تینوں مقامات کے حامل ممالک مصر، شام و حجاز کی جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی، مذہبی وشرعی خصوصیات کی وضاحت کی گئی ہے۔ دسواں موضوع تینوں مراکزی نوعیتوں کے خلاصے او رمسلمانوں کے ان پر استحقاق کے تعلق سے ہے۔ اس کے ضمن میں مصر کی ملکیت و قومیت مقاماتِ مقدسہ کے حسبِ حال شرعی ہدایات، مقاماتِ مقدسہ کے سلسلے میں مسلمانوں کی فریب خوردگی نیز اس کے دور رس اور مہلک نتائج پر بحث کرتے ہوئے حجاز، شام، فلسطین و مصر کے تعلق سے مقاصد عشرہ کو گنا کر اپنی ذمہ داریوں کو بتایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان مقدس مقامات کے تعلق سے خلاصہ مقاصد میں اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کیا ہے۔