حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ودیعت ہوتی ہے۔ اس تجلی کو زمانی شکل میں دیکھا جائے تو ’’یوم جمعہ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جو سید الایام ہے اور امت مسلمہ کا منتخبہ ہے۔ یوم جمعہ کو سیدالایام اور اس میں رونما آثارِ تجلی کی زبانی کیفیات کو مصنف نے قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جس کا اختصار بایں طور ہے۔’’یوم جمعہ کی مثال بھی اس کے تحت آتی ہے جسے قیامت کے دن ایک ممتاز، نورانی اور چمک دار صورت دی جائے گی اور وہ جمعہ کے پابند لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ اس لئے اسے سیدالایام کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ صورت حق تعالیٰ کے علم ازلی میں پہلے سے موجود تھی کیوں کہ امت مسلمہ سے ہزاروں سال پہلے اسی کو معیار بنا کر حق تعالیٰ نے تین امتوں ، یہود، نصاریٰ اور امت مسلمہ کا امتحان لیا کہ وہ عبادت کے لئے یومِ عید کی طرح ایک دن منتخب کریں جو ہمارے علم میں پہلے سے متعین ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تم میں سے کون ہمارے انتخاب دن تک پہنچتا ہے اور اسے ہی یومِ عبادت قرار دیتا ہے۔ یہود نے یومِ سبت (شنبہ کا دن) منتخب کیا۔ نصاریٰ نے یوم الاحد (اتوار کا دن)منتخب کیا اور امت مسلمہ نے یومِ جمعہ منتخب کیا جو حق تعالیٰ کا انتخاب فرمودہ وقت تھا۔ جس سے امتِ مسلمہ اس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور اس کی رائے وحی الٰہی کے مطابق ہوگئی۔ اس موضوع کے دوسرے مباحث میں خاص تجلی انسانیت سے تجلی کعبۂ مقدسہ تک، اصل سے فرع کے رشتے کے لوازمات میں محبت وطن کو قدرتی مانتے ہوئے اس کا اس حصۂ زمین کی کشش چوں کہ انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے اس حصۂ زمین کی طرف جس میں کعبۂ مقدسہ قائم ہے انان کا چلا جانا اُس کی فطرت کا حصہ ہے کیوں کہ وہ اس ساری زمینی مخلوق کی مادی اصل ہے۔ خانۂ کعبہ کی دوسری امتیازی خصوصیات کے ساتھ ساتھ درج بالا امور پر بھی فقہی و شرعی اصولوں کی روش میں پیش کرنے کے بعد قارئین کی توجہ بطور خاص اس حقیقت پر مبذول کرائی ہے۔ ’’خلاصہ یہ ہے کہ اس قضاء و خلا میں سے کعبۂ مقدسہ کی فضائِ خاص اور جہتِ مخصوصہ، اللہ نے خود ہی منتخب فرمائی اور پھر اس میں وضعِ خاص کو خود ہی کعبہ کا نام دیا پھر اس کی ساخت پرداخت کرکے خود ہی اس کی اطلاع فرمائی پھر خود ہی اس پر اپنا جلوۂ تجلی اتارا اور اسے اپنے کمالات کی نمائش گاہ بنا کر خود ہی مخلوق کو اس کی خبر دی اور پھر خود ہی اس قضائِ خاص پر بطور علامتی نشان کے عمارتِ کعبہ تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا۔ پھر تعمیر سے پہلے خود ہی اس کی بنیادیں اپنے ملائکہ سے بھروائیں پھر آدم و ابراہیم علیہما السلام کو انہی بنیادوں پر تعمیر کا امر فرمایا جس سے وہ تعمیر عمل میں آئی۔ پھر تیاریٔ تعمیر کے بعد خود ہی ان دونوں مقدسین کو یہ حکم بھی کہ وہ نشانِ کعبہ تیار ہوجانے کا دنیا میں اعلانِ عام بھی کردیں کہ لوگ اس میں حاضر ہو کر یا اس کی طرف رُخ کرکے حج