حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
موسوی کا قہری رنگ، دفاعی نوعیت کے آثار، اسلام کا مرکز دفاع، طور سینا کے ساتھ تینوں مقاماتِ کے نقطہ ہائے فیض کے فرق، حقیقت کے لحاظ سے ان کی تجلیات، باہمی تفاوت اور فرق مراتب میں موازنہ کرتے ہوئے کعبہ و اقصیٰ کی طور پر فضیلت کے چودہ دلائل پیش کئے گئے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ ۱-کعبہ و اقصیٰ کا قبلہ ہونے میں شریک رہنا۔ ۲- کعبہ و اقصیٰ کا وضعِ الٰہی ہونا۔ ۳- کعبہ و اقصیٰ دونوں کا عبادت گاہ ہونا۔ ۴-دونوں کی بنیادوں کا ملائکہ علیہم السلام کے ذریعہ بھرا جانا۔ ۵-دونوں کا سارے عالم کی عبادت گاہوں میں اولیت کا شرف رکھنا۔ ۶-دونوں مقامات کا طوفان نوح میں بیت اللہ سے چھوکر آگے ۷-دونوں مقامات کے بانیوں کی نوعیت کا ایک ہونا مثلاً خانہ کعبہ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ذریعہ اور مسجدِ اقصیٰ کو حضرت سلیمان اور ان کے بیٹے حضرت دائود علیہما السلام کے ذریعہ بنایا جانا۔ ۸-دونوں مقامات کی بناء پیغمبروں کی ذاتی رائے سے نہیں بلکہ امرِ خداوندی سے رکھا جانا۔ ۹-کعبہ و اقصیٰ کو ایک ہی انداز سے برکت و ہدایت کا گھر بتلایا جانا۔ ۱۰-کعبہ و اقصیٰ اور ان کے شہروں کا اسلامی قلم رو میں ایک ہی انداز سے آنا۔ ۱۱-دونوں مقامات کی فتح کے بعد دونوں کی تطہیر اور صفائی کے طریقہ میں یکسانیت۔ ۱۲-دونوں مقامات کی تطہیر کے بعد دونوں مقدس گھروں کا جشنِ فتح میں یکساں ہونا۔ ۱۳-کعبہ و اقصیٰ کی حتمی تعمیر کی تکمیل کے بعد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت سلیمانؑ کا بہ اذن اللہ دعائیں مانگنا اور ان کی قبولیت۔ ۱۴-کعبہ و اقصیٰ دونوں کا معراجِ نبویؐ کی ابتدائی منزلیں بننا۔ ساتواں موضوع انسان میں فطرت اللہ کے آثار کے تعلق سے ہے۔ اس کے متعلقات میں حقیقتِ باری کے دلائل، فطرت کی یکسانیت، صورتِ انسانی کا صورتِ الٰہی سے عقلی رابطہ، مخلوق کے کلی اور نوعی نمونے، عقل کلی، تجلی وشعوری، حیاتِ کلی و تجلی الٰہی، موتِ تجلی و تجلی المیت، صلہ رحمی و امانت جیسے انسان کے فطری اوصاف کو کرنے کے بعد ان سب کو اس تجلی کا پرتو ثابت کیا گیا ہے جو تجلی باری تعالیٰ سے انسان میں