حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
علاوہ ازیں اس بحث میں آپ نے تجلی کا عرفانی، قرآنی، برہانی و عیانی ثبوت، عناصر اربعہ میں تجلیات کی کارفرمائی، تجلی خلقت، تجلی ہدایت کے ساتھ تجلی، وحدانی ثبوت، تجلیات کی رنگا رنگی، عرش،کرسی، آسمان، زمین، لوح محفوظ، قمر، میزان، جنت، جہنم، یوم زندگی، فلکی، انسانی، انبیائی، موسوی، عیسوی تجلیات، ساقی،صورت، کوکھ وقدم کی تجلیات کے علاوہ نزول کی تجلی کی سورتیں اور ان کے نام جیسے وقوف ظہور، صدور، صرور، نور وغیرہ سے استدلال کرکے تینوں مقاماتِ مقدسہ کی تجلیاتِ خاصہ اور ان کی خصوصی نوعیتوں پر فلسفیانہ انداز سے تفصیلی کلام کیا ہے جو بہرطور قابل ملاحظہ ہے۔ چوتھے موضوع میں تجلی کعبہ کے عقلی دلائل، اس کی جامعیت، صفات وجودی نیز اس کی دو شکلوں ، پھر ان صفات کا اقتضاء بہ شکل حج بیت اللہ و نماز، قبلۂ حج و قبلۂ نماز پھر ان عبادات کی کیفیات غلامانہ و عاشقانہ پھر عشق عاقلانہ وعشقِ والہانہ، عاشقانہ کیفیت مسجود حقیقی کے ثابت ہونے کے بعد صفاتِ جلالی و صفاتِ جمالی کو بھی تفصیلی طور پر بیان کیا ہے اور پھر ان تمام مشمولاتِ بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ تجلی کعبہ ہی ایسی تجلی ہے جس میں ہر شر کا علاج ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’اس (شرک) کے سدِّ باب کے لئے اسلام نے کعبۂ مقدسہ میں جامع شئون وجودی تجلی کا جلوہ بکھیر کر ہمہ نوع عبادتوں کا ایک ہی وحدانی مرکز اور نقطۂ توحید سامنے کردیا ہے جس کے سامنے بیک دم شوق و رغبت، رعب و ہیبت، ناز و نیاز اور خندہ دگر ے کی ساری کیفیات کی ملی جلی عبادت ادا کی جاتی ہے جو تخیل کی نہیں بلکہ حقیقی تجلی کی عبادت ہے جس کے بیت اللہ میں جلوہ گر ہونے کا عقل و دانش، فہم و فراست، فقہ و معرفت، عقیدہ و جذبہ اور کشف و شہود کے ذریعہ یقین دلا کر قلوب کو مطمئن کردیا گیا ہے جس میں نہ شرک ہے نہ تشقت، نہ پراگندگی ہے نہ تذبذب و تردد، اس لئے کعبہ مقدسہ اور اس پر اتری ہوئی تجلی کی یہی جامعیت سب سے بڑی خصوصیت ہے جو زمان و مکان اور فضا و خلا کے کسی مقام کو میسر نہیں اس لئے کعبۂ مقدسہ ہی صحیح معنی میں مرکز توحید اور میدانِ عبادت ہے۔‘‘ پانچواں موضوع تجلی اقصیٰ کے ثبوت اور اس کی نوعیت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بھی قرآن و حدیث سے دلائل فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ قبلۂ اعزاز کا اول تجلی کا ہی مرہون منت ہے اس کے ذیل میں اقصیٰ کا تقدس، اس کی نوعیت، تجلی کعبہ کا اقصیٰ پر ورود اور قدس و کعبہ میں ثواب کے فرق کو عقلی و نقلی دلائل سے مدلل کیا گیا ہے۔ چھٹے موضوع میں تجلی طور کا ثبوت اور اس کی نوعیت، شانِ جلالی و عظمت، تجلی طور کی دفاعی شان، شریعت