حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مصنف علیہ الرحمہ نے خلقت کعبہ کو زمین کی ابتدائی شکل نیز اس کی خلقت کو آسمانوں سے مقدم قرار دیتے ہوئے قرآنی دلائل سے ثابت کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ’’غرض کعبۂ مقدسہ کی فضا کی وضع کا جو غیر جسمانی اور نادیدہ تھی اولاً پانی پر ظہور ہوا جو مختلف شکلیں اختیار کرتا رہا پھر زمینی ظہور ہوا اور اس کے بھی مختلف اطوار ہو کے بہرحال پانی کا یہ انجماد بالشت بھر سے بڑھتے بڑھتے اولاً اس لمبائی چوڑائی تک آج جو بیت اللہ کا عمارتی رقبہ ہے پھر رفتہ رفتہ پوری زمین کے رقبہ تک پہنچ کر ختم ہوگیا اور کرۂ زمیں پر ایسی صورت سے نمایاں ہوگیا جس کی اصل کعبہ مقدسہ نکلی جس سے زمین کی خلقت کا آغاز ہوا اور کعبہ وسطِ زمین رہا۔‘‘ اس کے بعد آپ نے کعبہ کے علمی، حسی، آبی، سطحی، اساسی، حجری، تحدیدی، علاقی، ارضی و تعمیری وجود کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے۔اسی کے ساتھ ساتھ آپ نے طہورِ اقصیٰ و طہورِ طور کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر بھی قرآ ن و احادیث مبارکہ سے دلائل فراہم کئے ہیں ۔ تیسرے موضوع میں تینوں مقامات کی حقیقت میں تجلی کے فلسفیانہ نکات پیش کئے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں تجلی کا مفہوم اس طرح پیش کیا ہے جس میں حقیقت کعبہ کے ادراک کے ساتھ ساتھ وحدت و اسلامی اتحاد کا منشاء بھی پورا ہوجاتا ہے اور مقصدِ عبادت بھی واضح ہوجاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ: ’’عبادت کا مقصد قربِ معبود اور آخر کار دیدارِ معبود ہے پھر اسی کے ساتھ اس مرکز عبادت (کعبۂ مقدسہ) سے سارے مراکز عبادت کو جوڑ کر اور سب کا رخ اسی طرف کرکے انسانوں میں وحدت و اتحاد پیدا کرنا بھی مقصود ہے کہ سب کا رخ اجتماعی طور پر اسی کعبۂ پاک کی طرف رہے کہ اس کے بغیر انسانوں میں یک جہتی، یک رخی، عالمی اتحاد اور عالمی امن و سکون کا قائم ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ جیسے آج کل کی اصطلاح میں بقائِ باہم کا عنوان دیا گیا ہے۔شریعت نے اسی کا شرعی نام ’’استقبالِ قبلہ‘‘ رکھا ہے۔ تجلی کی دلچسپ تفصیلی بحث کا خلاصہ حکیم الاسلام علیہ الرحمہ نے درج ذیل الفاظ میں اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا ہے۔ ’’خانۂ کعبہ میں خدا تو نہیں مگر خدا کا جلوہ ضرور موجود ہے اور اس جلوہ نمائی یا عکس ریزی کا نام ہی شریعت کی زبان میں تجلی ہے۔ اس سے نمایاں ہوجاتا ہے کہ کعبہ کی حقیقت درحقیقت اس ملکِ قدوس کی تجلی اور اس کا عکس پاک ہے جو اس قضائے خاص میں اترا ہوا ہے نہ کہ عین ذات اتری ہوئی ہے جس سے عقل بھی منکر نہیں ہو سکتی۔ پس خانۂ کعبہ میں خدا کے قیام کے معنی تجلی خداوندی کا قیام ہے نہ کہ عین ذات کا قیام کہ جس سے عقل نہ صرف یہ کہ انکار نہیں کرتی بلکہ اور اسے معقول کہتی ہے۔‘‘