حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
برکات، وضعِ کعبہ، وضعِ اقصٰی و وضعِ طور وغیرہ کی بحیثیت ہیں جن کے بنیادی دلائل قرآن و حدیث اور تاریخی طور پر مستند اہم کتب سے فراہم کئے گئے ہیں ۔ دوسرا موضوع ان مقاماتِ مقدسہ کے مظاہر اور ظواہر نیز ان کی صلاحیت کے مراحل پر مشتمل ہے۔ اس کے ضمن میں ’’مقاماتِ مقدسہ پر اصولِ فطرت کا نفاذ، مختلف آبی و ارضی مشکلوں صورتِ کعبہ کو بیان کرتے ہوئے کعبۂ مقدسہ کی آبی شکل اس طرح ذکر فرمائی ہے۔ ’’سب سے اول اس کا ظہور اس اتھاہ سمند میں ہوا ہے جس کے اوپر عرشِ عظیم قائم ہے چنانچہ آثارِ صحابہ سے یہ عقدہ حل ہو کر سامنے آتا ہے کہ کعبۂ مقدسہ کو بصورتِ جہت اولاً اس پانی میں نمایاں کیا گیا جس کی موجیں بنص حدیث نبوی Bآسمان و زمین کے برابر تھیں ۔ فرماتے ہیں کہ: ’’قدرتی بات ہے کہ پانی کی گہری جگہوں میں پانی بشدت ٹکراتا ہے جس کی ٹکروں سے موجیں اونچی اٹھتی ہیں اور پانی میں ابھار پیدا ہوتا ہے تو موضع بیت اللہ بھی اس گہرائی کی صورت سے نکل کر ابھار اور اونچائی کی شکل میں نمودار ہوا جو جھاگ کی صورت تھی اور اس اونچائی نے ایک قبہ کی سی صورت اختیار کرلی۔ چنانچہ ابن عباسؓ کی روایت میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں : ھو اول بیت ظھر علی الماء عند خلق النھار والارض خلقۃ قبل الارض بالفی عام و کان زبدۃ بیضاء فخلت الارض من تحتہٖ۔ یہ پہلا (عبادت کا) گھر ہوا جب کہ زمین و آسمان پیدا ہونے والے تھے اسے اللہ نے زمین بنانے سے دو ہزار سال پہلے ظاہر فرمایا اور وہ پانی پر سفید مسکہ مکھن کی طرح جھاگ کی صورت سے ظاہر ہوا اور اس کے نیچے سے زمین بننی شروع ہوگئی۔ اس دعوے کی مزید پختگی نیز کعبہ کی آبی شکل کے ارضی شکل میں بدل جانے کی وضاحت اس طرح فرمائی کہ: ’’جب زمین بننے کا وقت آیا تو پانی کے اس جھاگ سے ابھرے ہوئے قبہ نما حصہ پر جو مقام بیت اللہ تھا، شدید ہوا چھوڑی گئی جس سے اس حصۂ آب میں پانی کی موجیں اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ ٹکرائیں اور پانی کے اس تصادم سے اور اس کے ٹکرائو سے یہ جھاگ اور سخت ہوتے گئے۔ ان میں گاڑھا پن بڑھتا گیا اور انہوں نے پتھریلا پن اختیار کرلیا جیسا کہ عادتاً پانی کے ٹکرائو سے سمندر میں جھاگ اٹھ اٹھ کر اور جم جم کر پتھریلی صورت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس طرح پانی کے اس جصۂ خاص میں انجماد پیدا ہوا اور زمین کی چھوٹی سی سطح نمودار ہوئی جس سے زمین بننے کا آغاز ہوا۔