حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بھی حیرت انگیز تھا۔ انتظامی بکھیڑوں میں مبتلا رہنے کے باوجود ان کا علمی مذاق ہمیشہ تازہ اور ان کی علمی استعداد سدا بہار رہی، احقر کے والد ماجد مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ اور حضرت حکیم الاسلامؒ بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھی اور زندگی کے ہر مرحلے میں ایک دوسرے کے رفیق رہے ہیں ، دونوں نے دارالعلوم دیوبند میں ساتھ پڑھا ساتھ فارغ ہوئے، ساتھ ہی پڑھانا شروع کیا، دونوں ایک ہی وقت حضرت شیخ الہند قدس سرہٗ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے، اور پھرحضرتؒ کی وفات کے بعد ایک ہی ساتھ تھانہ بھون حاضر ہوکر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے اور تقریباً دونوں کو ساتھ حضرت حکیم الامت تھانویؒ کی طرف سے خلافت عطا ہوئی۔ ۱۳۴۵ھ میں سب سے پہلا حج بھی دونوں نے ساتھ کیا۔ غرض ظاہری تعلیم اور باطنی تربیت سے لے کر سیر و تفریح تک ہر چیز میں دونوں کی رفاقت مثالی رفاقت تھی۔ پھر جب قیام پاکستان کی تحریک شروع ہوئی اور آزادی ہند کے طریق کار سے متعلق علماء دیوبند کے درمیان اختلاف رونما ہوا تو حضرت والد صاحبؒ کی طرح حضرت حکیم الاسلامؒ کا نقطہ نظر بھی حکیم الامت حضرت تھانویؒ اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی رائے کی طرف مائل تھا۔ لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے کو عملی سیاست سے بالکلیہ یکسو کرکے ہمہ تن دارالعلوم دیوبند کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوا تھا۔ اس لئے یہ نقطہ نظر اسٹیج پر نہ آسکا۔ حضرت والد صاحبؒ قیام پاکستان کے بعد یہاں تشریف لے آئے اور حضرت حکیم الاسلامؒ کے لئے دارالعلوم کی گراں بار ذمہ داری کے پیش نظر دیوبند چھوڑنے کا سوال ہی نہ تھا۔ لیکن یہ بات میں نے حضرت حکیم الاسلامؒ سے بار ہاسنی کہ جس روز حضرت مفتی صاحبؒ پاکستان کے لئے روانہ ہوئے اس روز میں دن بھرروتا رہا۔ آپ نے حضرت والدصاحبؒ کی وفات کے موقع پر جو تعزیتی مکتوب ارسال فرمایا اس میں بھی لکھا تھا کہ: ’’تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستانی قومیت اختیار فرمائی اور یہاں سے ہجرت فرماکر پاکستان تشریف لے گئے کسی مرنے والے کے لئے بھی اتنا کبھی نہیں رویا تھا جتنا آپ کے فراق پر رویا تھا، یہ حالت دیکھ کر سب گھر والے پریشان ہوگئے تھے کہ آخر کیا حادثہ پیش آگیا جو اتنا گریہ طاری ہے۔ یہ تعلق کی بناء پر تھا کہ ابتدائے عہد سے ہم رفیق رہے تھے‘‘ اس کے بعد سے وہ ہمہ وقتی رفاقت چھوٹ گئی۔ قلب و روح کا رشتہ کسی مرحلے پر نہ ٹوٹا ایک مرتبہ حضرت حکیم الاسلامؒ نے خط میں حضرت والد صاحبؒ کو لکھا کہ: ’’کل یہاں مستحسن صاحب فاروقی کے ساتھ مولوی ظہور احمد صاحب نے میری بھی دعوت کی تھی،