حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دنیا کے لئے ان میں مرکزیت کی شان پیدا ہوئی ۔ حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ نے ماحول کی کیفیت سے پیدا شدہ اثرات کو انسانی سعی و عمل پر منطبق کرنے کے بعد سعی و عمل کے دو پیرایوں کی تفصیل خوب صورت پیرائے میں فرمائی ہے۔ پھر روحانیت کا سرچشمہ نبوت جس سے دین کا وجود ہوتا ہے اور مادیت کا سرچشمہ سلطنت و اقتدار اور جس سے ملک اور تمدن قائم ہوتا ہے کو قرار دیتے ہوئے بنی اسرائیل کو حاصل شدہ ان دونو ں نعمتوں کو قرآنی آیت ’’واذ قال موسیٰ لقومہٖ یٰقوم اذکروا نعمۃ اللّٰہ علیکم اذ جعل فیکم انبیاء‘‘ (الٰی آخرہٖ) سے مستدل کیا ہے۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان دونوں کی قرآنی اصطلاحات ’’نعمتِ ملک‘‘ کو ’’تمکین فی الارض‘‘ یعنی زمینی حکومت کا استحکام کے اصطلاحی کتب ’’استخلاف فی الارض‘‘ اور ’’نعمت دین‘‘ کو ’’تمکین فی الارض‘‘ دلوں میں دین کے جڑ پکڑ جانے کے اصطلاحی لقب ’’استقامت فی القلب‘‘ کی تعبیرات سے مزین کرکے ان کے قرآنی آیات سورۂ حج آیت ۴۱، سورۂ نور آیت نمبر۵۵، سورۂ حٰم السجدہ، آیت نمبر۳۰اور سورۂ شوریٰ کی آیت نمبر ۱۵، کے جزو ’’واستقم کما امرت‘‘ جیسی آیات سے مدلّل کرتے ہوئے یہ نتیجہ فراہم کیا ہے کہ : ’’ان آیات سے صاف واضح ہے کہ بنی آدم کے لئے بنیادی طور پر نعمتیں دو ہی ہیں ’’تمکین فی الارض‘‘ یعنی زمین کی سلطنت اور ’’تمکین فی الدین‘‘ یعنی روحانی عظمت، قلوب کی دینی استقامت اور دلوں میں ایمان اور روحانیت کا رسوخ و استحکام، جس کا حاصل اصطلاحی الفاظ میں وہی استخلاف اور استقامت نکل آتا ہے۔ (۲) اس کے بعد آپ نے امت مسلمہ پر یہ عظیم انعام کی خبر کے لئے آخری وحی ’’الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی‘‘ سے استشہاد کرکے جو نکتہ پیش کیا ہے وہ بہرطور قابل داد ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کریمہ میں دین کو کامل کردینے اور نعمت کو تام کردینے کی اطلاع دی گئی ہے۔ غور کیا جائے تو یہ وہی دین اور ملک کی دو نعمتوں کی تکمیل ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو ان دونوں تکمیل شدہ نعمتوں کے عطا کردئیے جانے کی اطلاع ہے کیوں کہ ’’اکمالِ دین‘‘ کے کلمہ سے تو نعمتِ دین کی تکمیل کھلے طور پر نمایاں کی گئی ہے اور ’’اتمامِ نعمت‘‘ کے کلمہ سے خصوصیت کے ساتھ تکمیل ملک کی نعمت کی طرف واضح اشارہ فرمادیا گیا ہے۔(۲) علاوہ ازیں اس موضوع کے اہم نکات میں بنی اسرائیل اور اہل اسلام ، عالم دنیا کے تین بنیادی عناصر، ان عناصر کے تین مراکز، ان تینوں مقامات کی تقدیس کی تاریخی حیثیت، تینوں مقامات کی ظاہری و باطنی