حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
عصری اسلوب میں ڈھالنے اور اس کی ترویج و اشاعت کی جانب توجہ مبذول فرماتے ہوئے اپنی پوری گفتگو کا خلاصہ کچھ اس طرح فرماتے ہیں : ’’آج اس کی ضرورت ہے کہ اس حکمت کو نہ صرف یہ کہ اچھے اسلوب سے مرتب اور منضبط کرکے محفوظ ہی کردیا جائے بل کہ ضروری حد تک تشریح و توضیح اور امکانی حد تک تسہیل و تیسیر سے اسے دنیا کے ذہنوں سے قریب کرنے کی بھی سعی کی جائے تاکہ یہ دقت وغموض وغیرہ کے عذرات ِ باردہ لوگوں کے لیے اس سے ترک ِ استفادہ کا حیلہ نہ بن سکیں ، پھر بھی اگر کوئی اس فطری دین دین سے اپنایا دوسروں کا علاج نہ چاہے تو یہ اس کی قسمت کی بات ہوگی ، قاسمی حکمت کی بات نہ ہوگی۔‘‘(۲۴) ضرورت ہے کہ ارباب ِ علم وفضل اور بالخصوص فرزندانِ دارالعلوم دیوبند ان جواہر ریزوں سے خود بھی فائدہ اٹھائیں اور اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں ان نادر علوم کی اشاعت کریں کہ اس دور کے فلسفیانہ الحاد کا زہر اسی تریاق سے دفع ہوسکتا ہے۔ اس لیے ان علوم کی اشاعت نہ صرف ان کے لیے نافع ہی ہے بل کہ بتقاضائے وقت ان کا فریضہ بھی ہے کیوں کہ دارالعلوم دیوبند محض ایک درسگاہ ہی نہیں بل کہ ایک مستقل مکتب ِ فکر بھی ہے اور وہ فکر یہی ہے جو ان سفینوں اور ساتھ ہی مستفیض سینوں میں متوارث طریق پر منتقل ہوتا چلا آرہا ہے۔‘‘ (۲۵) حکیم الاسلامؒ نے حکمت قاسمیہ کی عصری اسلوب میں ترویج اور ان کے نادر علوم کی اشاعت کو طبقۂ دیوبند کا فریضہ قرار دیاہے۔ دارالعلوم وقف دیوبند (جو عصرِ حاضر میں عالمی سطح پر حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و افکار کا امین اور حکیم الاسلامؒ کے خوابوں کی تعبیر ہے) نے اس ضرورت کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے سالِ رواں حجۃ الاسلام اکیڈمی قائم کرکے حضرت نانوتویؒ کے علوم و افکار کی جدید اسلوب میں ترویج و تحقیق کا کام شروع کردیا۔ چنانچہ حکیم الاسلامؒ کی یہ مفصل سوانح ’’حیاتِ طیب‘‘ کی اشاعت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس پیش رفت سے حکمتِ قاسمیہ کے بہت سے گوشے خود حضرت حکیم الاسلامؒ کے حالاتِ زندگی اور علوم و کمالات سے الم نشرح ہوں گے۔ حکمتِ قاسمیہ کیا ہے؟ اس کا تعارف و تعریف اور دلنشیں تشریح حکیم الاسلامؒ کی اس معرکۃ الآراء تحریرکی روشنی میں آپ کے سامنے آئی، جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکیم الاسلامؒ کو اپنے جد امجد حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و افکار سے کیسی مناسبت اور