حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اور (اب) اس مفسدہ کے دفعیہ کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ دین کے(عقائد و اعمال) کی (عقلی) مصلحتیں بیان کی جائیں اور ان کے لیے (بطور فن کے) قواعد وضع کیے جائیں جیسا کہ یہود و نصاریٰ دہریت اور ان جیسے دوسرے فرقوں کے مقابلہ میں ایسا ہی کچھ کیا جا چکا ہے۔ اس لیے آپ نے دین کے سلسلہ میں عقلی دلائل و براہین کو ایک فن کی صورت سے مدون فرمایا، اس کے اصول و مقاصد وضع فرمائے اور اسے فن کی صورت دیتے ہوئے اس فن میں جلیل القدر کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ تصنیف فرمائی جس میں ابواب و فصول کے تحت فن اسرار کے قواعد و ضوابط اور اصول و قوانین وضع فرما کر ہر باب میں اس کے مناسب عقلی دلائل و براہین کا ایک عظیم ذخیرہ مہیا فرمایا۔ اس مقدس کتاب نے حقیقت یہ ہے کہ بندگانِ عقل کی کمر توڑ دی اور ان کے لیے بندگانِ عقل بننے کے بجائے بندگانِ خدا بننے کا راستہ ایسے مؤثر انداز سے کھول دیا کہ یا وہ اس پر چلیں یا سکوتِ عجز کے ساتھ اپنے غم وغصہ کو دبائے بیٹھے رہیں اور ختم ہو جائیں ، آپ نے فنی طور پر ابواب دین میں عقل و نقل کا صحیح مقام واضح فرماتے ہوئے ان دونوں کی باہمی نسبت اور حقیقی توازن کی صورت واضح فرمائی، آپ نے عقل سے کسی عقیدہ کا استفادہ کرنے کے بجائے اسے عقائد و احکام شرعیہ کے لیے مؤید مثبت اور دشمنانِ حق پر الزام قائم کرنے کا ایک وسیلہ قرار دیا جس سے نقل کی عظمت و حکومت اور عقل کی اس کے حق میں خدمت گاری پوری طرح و اشگاف ہوگئی، انھوں نے مدعیان عقل کو یہ تاثر دیا کہ جو چیز ان کے یہاں خدائی کا درجہ رکھتی ہے یعنی عقل وہ ان کے یہاں بحق دین محض ایک خدمت گار اور چاکر کی حیثیت رکھتی ہے اور پھر اس کے تحت مسائل میں اس کے نمونے ظاہر فرمائے جس سے بہت سی جزوی عقلوں کو ندامت کے ساتھ پیچھے ہٹنا پڑا لیکن اس کے بعد تیرہویں صدی میں جب کہ یورپین قومیں ہندوستان میں برسرِ اقتدار آگئیں اور اپنی ساتھ فلسفۂ جدید اور سائنس کی ترقیات لے کر نمایاں ہوئیں ، مشینی دور کا آغاز ہوا، مشینری نے دنیا کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیا، کھانا پینا، دینا ، لینا، لباس اور وسائل معاش، سفر اور حضر ، سواری اور مراکب ،تجارت و زراعت صنعت و حرفت، جنگ و صلح حتی کہ مکانوں کی ہوا اور پانی ، دوا اور غذا، آوازوں کا سننا اور سنانا، تقریر اور خطابت ، غرض ساری زندگی اور وسائل زندگی مشینی لائنوں پر رواں دواں ہونے لگی، تار اور فون پر خبریں دوڑنے لگیں ، ریل، موٹر اور اسٹیمر میں بحر و بر کی مسافتیں طے ہونے لگیں ، وسائل حیات فیکٹریوں اور ملوں میں ڈھلنے لگے، دور دراز کے انسان ٹیلی ویژن کے برقی پردوں پر نمایاں نظر آنے لگے، ہزار ہا میل کی مسافت کے باوجود ایک ملک دوسرے ملک کے آمنے سامنے آکھڑا ہوا۔‘‘(۲۳) حکمت قاسمیہ کے عنوان سے اپنی گراں قدر تحریر کے آخر میں فرزندانِ دیوبند کو حکمتِ قاسمیہ کے