حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکمتِ قاسمیہ میں کتنی مہارت عطا کی تھی، آپ کی تحریرات، تصنیفات، خطبات میں نہ صرف اس کی مثالیں ملتی ہیں بلکہ سطر سطر سے حکمتِ قاسمیہ مترشح ہوتی ہے اور پھر اتنے سہل اور سادہ اندازمیں کہ بڑے سے بڑے علمی نکتہ کو ایک واجبی صلاحیت رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے اور اس پر یہ شعر صادق آتا ہے ؎ شعر میرے ہیں سب خواص پسند پرمجھے گفتگو عوام سے ہے واللّٰہ الموفق و علیہ التکلان وھو نعم المولٰی و نعم النصیر …………………………………………… (۱)حضرت مولانا محمد طیب قاسمیؒ، حکمت قاسمیہ، ص:۱۷ (۲)ایضاً،ص:۱۸ (۳)ایضاً،ص:۲۰ (۴)ایضاً (۵)ایضاً،ص:۲۱ (۶)ایضاً،ص:۲۳ (۷)ایضاً،ص:۲۳ تا ۲۵ (۸)امام محمد قاسم النانوتویؒ، میلۂ خداشناسی، ص:۴۰ (۹)ایضاً (۱۰)ایضاً (۱۱)ایضاً،ص:۳۹ (۱۲)ایضاً (۱۳)ایضاً (۱۴)ایضاً۳۸ تا ۳۹ (۱۵)حضرت مولانا محمد طیب قاسمیؒ، حکمت قاسمیہ، ص:۲۸ (۱۶)ایضاً، ص:۲۹ (۱۷)ایضاً (۱۸)ایضاً ، ص:۳۰ تا ۳۳ (۱۹) ایضاً، ص:۳۳ (۲۰) ایضاً، ص:۱۱ تا ۱۴ (۲۱) حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ، حجۃ اللہ البالغہ، ص:۳ (۲۲) ایضاً، ص:۷ (۲۳)حضرت مولانا محمد طیب قاسمیؒ، حکمت قاسمیہ، ص:۱۵ (۲۴) ایضاً، ص:۲۷ ……v……