حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کی وجہ یہ تھی کہ وسوسہ اندازوں نے بھی وسوسہ اندازی کو کسی مستقل فن کی حیثیت نہیں دی تھی وہ صرف اپنے مزعومات کے ضمن میں اپنے مفہوم کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اہلِ حق کے مفہوم کو غیر معقول ثابت کرنے ہی پر اپنی ہمت صرف کرتے رہے جو مختلف فنون میں بذیل مسائل جمع ہوتے رہے اور انھوں نے اسرارِ دین یا حکمت ِ اسلام کو کسی مستقل فن کی صورت میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، اس لیے اسرار دین موضوعِ دین تو بن گیا مگر فن نہیں بنا۔‘‘ (۲۰) مزید وضاحت فرماتے ہیں : ’’آخر کار متأخر طبقہ میں حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سرہ کا ظہور ہوا جب کہ یورپ اپنے الحادی ہتھکنڈوں کے ساتھ ابھرنے کے مقام پر آرہا تھا، ہندوستان کے لیل و نہار بدل رہے تھے، دینی لائنوں میں خود رائی اور عقل پرستی کی گھٹائیں دلوں پر چھا رہی تھیں اور وقت آرہا تھا کہ یہ سیاہ بادل برس پڑیں اور دنیا کو سیلِ الحاد و دہریت میں بہالے جائیں تو آپ نے اپنی فراست ِ باطنی سے ان مقدمات کو سامنے رکھ کر آخری نتیجہ سمجھ لیا اور دیکھا کہ فلسفیت کی داغ بیل پڑ چکی ہے نہ صرف یہی کہ اس ملک کی دنیا دین کی استدلال لائنوں میں نقلی دلائل پر قناعت کرنے کے لیے تیار نہیں بل کہ اسلام پر شکوک و شبہات کا وار کرنے کے لیے یہ عقلی سفسطے ایک مستقل فن کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں جن کے آثار کم و بیش نمایاں بھی ہو چکے ہیں اس لیے انھوں نے اپنے قلب صافی کی مخفی آواز بلند کرتے ہوئے فرمایا کہ : و ان الشریعۃ المصطفویۃ اشرقت فی ہذا الزمان علی ان تبرز فی قمص سابغۃ من البرہان۔ (۲۱) اور شریعت مصطفوی اس زمانہ میں اس پر ابھر رہی ہے کہ وہ (عقلی) حجت وبرہان کی مکمل اور مطابق بدن قمیصوں میں نمایاں ہو۔ آپ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ایک طبقہ معتزلہ کا خلف رشید بن کر سامنے آرہا ہے جو وحی پر عقل کی حکمرانی کا قائل ہے اور نصوص شرعیہ کوعقل کی کسوٹی پر پرکھے بغیر ماننے کے لیے تیار نہیں اور نہ ان پر ایمان لانا ہی ضروری سمجھتا ہے بالخصوص دین کے ان غیبی حقائق پر جو عقول سے بالاتر اور مشاہدہ سے ماورا بھی ہیں اس لیے آپ نے اس فتنہ کے دفعیہ اور استیصال کے طریقوں پر غور کرتے ہوئے فرمایا: ولا سبیل الی دفع ہذہ المفسدۃ إلا بان تبین المصالح و تؤسس لہا القواعد کما فعل نحو من ذلک فی مخاصمات الیہود والنصاریٰ والدہریۃ و أمثا لہم (۲۲)