حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
عقلوں کے وہمیات کو عقل مصفا کی حقیقی روشنی سے شکست دی جس سے ایک طرف اگر یہ تخریبی جماعتیں تھک کر مایوس ہوگئیں تو دوسری طرف عقائد و مسائل کے ان حکیمانہ عقلی دلائل سے ایمان والوں کے ایمانوں کی بصیرت میں ترقی اور اضافہ ہوتا گیا لیکن فتنۂ شبہات کی جڑیں بہرحال قائم ہوچکی تھیں جوقائم رہیں ، مختلف فرقوں اور پارٹیوں کی زیر سر پرستی ان فتنوں نے اصلیت کی صورت پیدا کرلی اور یہ مختلف مکاتیب خیال نئے روپ کے مکاتب و مدارس میں مستقلاً زیرِ بحث لائے جانے لگے، اس لیے فلسفہ مزاج پارٹیوں نے یہ سوچ کر کہ اب وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں کون سا حربہ استعمال کریں خالص اصولی عقائد کا میدان چھوڑ کر اسلام کے عمومی مسائل میں ان فتنوں کا گدلا پانی پھیلانا شروع کردیا یعنی عام دینی مسائل میں اس عقلی تگ و تاز سے انکار و تشکیک کے فتنہ کا آغاز ہوگیا تا کہ اہلِ حق کو نفسِ دین ہی سے بدظن بنا دیا جائے اور وہ بالآخر ان ہی نوخیز پارٹیوں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہوجائیں تو ارباب حکمت و معرفت اور مفکر قسم کے ارباب ِ فضل و کمال آگے آئے اور انھوں نے اسلام کے تمام امہات مسائل پر حکیمانہ اسلوب اور عاقلانہ انداز سے کلام کیا، عام اسلامی مسائل کے اسرار و نکات پر عقلی دلائل سے بحث کی اور مسائل کی حقیقت کھول کر فلسفہ کا تار و پود بکھیر دیا، امام رازیؒ، امام غزالیؒ، امام خطابیؒ، ملک العلماء شیخ عزالدین ابن عبد السلامؒ اور ابن عربیؒ جیسے عرفاء اور دانشوران حکمتِ دین کھڑے ہوئے اور انھوں نے دین کی حقائق و مصالح کو عقلی براہین سے پیش کرکے نہ صرف دین کی حدود ہی کو مضبوط کیا اور نہ صرف دین کے ہزار ہا مخفی اسرار اور مستور گوشے ہی اپنی دوربین عقلوں سے کھول کر دنیا کے سامنے رکھ دیئے بل کہ عقلی مباحث کے لیے مستقل بنیادیں ہموار کردیں ، امام رازیؒ نے اپنی مستقل تفسیر کا موضوع ہی تفسیر بالدرایۃ اور تفسیر بالمعقول رکھا اور قرآنی آیات کے عقلی پہلووں کو واشگاف کرنا قرار دیا، امام غزالیؒ نے تہافت الفلاسفہ لکھ کر اصولی طور پر سرے سے فلسفہ ہی کی بنیادوں کو کھو کھلا کرکے رکھ دیا جس سے شک اندازوں کے گروہ پر کاری ضرب پڑی اور اسے سوچ پیدا ہوئی کہ وہ اب اہل حق کے مقابلہ میں کون سا حربہ اختیار کرے، انھیں حیرانی تھی کہ امہات عقائد، مہمات مسائل آیاتِ قرآن اور روایاتِ حدیث کے تمام دائروں میں توعقل معاد عقل معاش کو شکست ِ فاش دے چکی ہے تو آخر اب ان مایوسانِ عقلِ و دین کے بقاء کی کیا تدبیر ہے؟ اس لیے آخر کار انہوں نے امہات مسائل کا میدان چھوڑ کر فروعی مسائل میں اپنے وہم و شک کا گدلا پانی بہانا شروع کردیا جس سے مسائل فقہیہ میں انکار و تشکیک کے لیے فتنہ کا آغاز ہوگیا، مسائل فرعیہ کی غیر معقولیت، انفرادی استبداد یا ائمہ تفقہ کے فروعی اختلافات کے تخریب دین دکھلانے کے اتہامات سے اسلامی