حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
تصانیف ِ قاسمیہ کے مطالعہ کے بغیر میسر ہی نہیں آسکتا اور اسی بناء پر انھوں نے لاہور میں محمد قاسم ولی اللہ سوسائٹی کی بنیادڈالی جس کے ذریعہ انھوں نے ان علوم کی اشاعت و ترویج میں پوری ہمت صرف فرمادی، مولانا ممدوح نے احقر کی عرضداشت پر دارالعلوم میں اس ناکارہ کو حجۃ اللہ البالغہ بھی پڑھانی شروع کی اور مختلف اوقات میں احقر کے سوالات پر حکمت ِ قاسمی اور حکمت ولی اللہی کے اصول و حقائق تشریح کے ساتھ نقل فرماتے تھے۔ حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی دارالعلوم میں پہونچ کر اپنے اوائل ایام میں حضرت والا کی تصانیف میں سے تقریر دلپذیر کا درس شروع کرایا تھا لیکن سیاسی مشاغل کے غلبہ کے سبب وہ نبھ نہیں سکا اور چند ہی اسباق کے بعد ختم ہوگیا، آج دارالعلوم کے قدیم اساتذہ میں استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی ؒاس حکمت کے امین ہیں جو حکمت ِ قاسمیہ پر کافی نظر رکھتے ہیں اور درس ِ حدیث میں موقعہ بموقعہ ان علوم کوطلبہ کے ذہنوں تک پہونچاتے رہتے ہیں جس سے دارالعلوم کے علمی حلقہ میں اک حدتک یہ ذوق موجود ہے۔‘‘(۱۸) بے شک حکمتِ قاسمیہ ایک تفہیمی اسلوب اور تشریحی منہج ہے، مگر اعتقادیات میں عام اسالیب اور مناہج سے کئی پہلوئوں میں یکسر مختلف ہے اور خالص علمی اور فکری ہے، جس کو سمجھنے اور برتنے کے لئے ایک خاص علمی مذاق مطلوب اور فکری صلاحیت درکار ہے۔ چنانچہ حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں کہ: ’’حاصل یہ ہے کہ حکمت ِ قاسمیہ کتنی ہی دقیق سہی مگر آج کے دورِ الحاد کے گہرے شبہات کا علمی حل بھی اس کے سوا دوسرا نہیں اس لیے اس کے دقیق ہونے کا ثمرہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ان جواہر ریزوں سے رو گردانی یا بے توجہی برتی جائے ورنہ یہ ذکر کردہ طبقہ جو اس حکمت کا حامل تھا پیدا ہی نہ ہوتا بل کہ یہ ہے کہ ان غامض اور نادر علوم سے آج کے دور کی سطحیت اور سطح پسندی کا علاج کیا جائے جس کی وجہ سے ذہن اس غامض حکمت سے بعید ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔‘‘(۱۹) دین کی تفہیم و تشریح کے لئے حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ جیسا حکیمانہ اسلوب اپنانے کی ضرورت کیوں ہے؟ اور کیا یہ کوئی نئی چیز ہے کہ جس کی علمائے متقدمین میں کوئی نظیر نہیں ملتی؟ اس سلسلہ میں حکیم الاسلامؒ وضاحت فرماتے ہیں : ’’پس جس طرح علماء حق نے نقل و روایت کے میدان میں وضاعین حدیث تلبیس کنندگانِ روایات کی روایتی دسیسہ کاریوں کے پردے چاک کرکے رکھ دیئے تھے اسی طرح اس درایتی میدان میں ان مدعیانِ عقل کی معنوی تحریفات جاہلانہ تاویلات اور دروغ بازیوں کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی اور ان ناساز