حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
اور غیر درسی تقریریں اسی حکمت سے مملو ہوتی تھیں پھر اسی طبقہ میں تیسرے ترجمان میرے والد ماجد فخرالاسلام حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے جنھیں اس حکمت کے مضامین پر اس درجہ عبور حاصل تھا کہ وہ حضرتِ والا کی کتب کے صفحہ اور سطر تک کے حوالہ سے یہ مضامین ارشاد فرمایا کرتے تھے، جلالین شریف ، مشکوۃ شریف اور مسلم شریف میں جو آخر میں ان کے درس کی خاص کتابیں تھیں اکثر و بیشتر موقعہ بموقعہ ان علوم کی ترجمانی فرماتے رہتے تھے، راقم الحروف کو جو تھوڑی بہت مناسبت حکمت ِ قاسمیہ سے پیدا ہوئی وہ انھیں کے درس کا طفیل ہے جب کہ مشکوٰۃ و مسلم احقر نے انہی سے پڑھی ہیں اور ان میں حضرت مرحوم آیات و احادیث کے مضامین کے اثبات میں اسی حکمت کے اجزاء سے کام لیتے تھے جس کا اثر شرح صدر کی صورت سے سینوں پر پڑتا تھا، ان کے بعد دوسرے طبقہ میں حضرت علامہ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ چوتھے ترجمان تھے جنھیں اس حکمت پر پورا عبور حاصل تھا اور انھوں نے یہ علم اول کے دو بزرگوں کے درس سے حاصل کرکے اپنے دل کی گہرائیوں تک پہونچایا اور پھر تصانیف ِ قاسمیہ کا گہرا مطالعہ فرمایا، ان کا مقولہ تھا کہ جس کے سننے والوں میں یہ حقیر راقم الحروف بھی شامل ہے کہ اگر میری نظر ان کتابوں پر نہ ہوتی تو نہ معلوم میں اعتزال کے کس گڈھے میں پڑا ہوا ہوتا ، حضرت ممدوح کے درسِ حدیث و تفسیر کا طغرائے امتیاز یہی علومِ قاسمیہ تھے جنھیں وہ احادیث کے سلسلہ سے درسی تقریروں ،نیز اپنے مواعظ و خطبات میں بیان فرمایا کرتے تھے اور یہی ان کی تقریروں میں جاذبیت کا اِک بنیادی سبب تھا، آپ نے اپنی شرح مسلم فتح الملہم میں بالخصوص کتاب الایمان میں اپنی تقریرات ِ استدلال کو انہی علوم سے آراستہ کیا اور ان علوم کو خاص طور پر اس کتاب میں سمویا ہے اور جگہ جگہ حضرت ِ والا کے حوالے دیئے ہیں ۔ آخر میں حضرت الاستاذ الاکبر حضرت علامہ انور شاہ قدس سرہ سابق صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند بھی اس حکمت کی طرف متوجہ ہوئے اور ان حقائق کی ترجمانی شروع فرمائی حتی کہ آپ نے طلبہ کی ایک مخصوص جماعت کو خارج اوقات میں شفاء شروع کرائی جس میں یہ ناکارہ بھی شامل تھا، اس میں جگہ جگہ کلامی مسائل کے ضمن میں حضرتِ والا کی تقریریں نقل فرماتے تھے اور انہی کے اصول سے فلاسفہ کا رد بھی کرتے جاتے تھے اسی دوران میں حضرت ممدوح نے ایک کلامی قصیدہ بنام حزب الخاتم فی حدوث العالم بھی موزوں فرمایا جس کے حاشیہ میں جا بجا حضرت ِ والا کی تصانیف کے حوالوں سے حضرت کے یہ کلامی علوم نقل فرمائے ہیں ۔ اس طبقہ ٔ ثانی میں خصوصیت سے حضرت علامہ مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ نے تو حکمت ِ ولی اللہی اور حکمت ِ قاسمی کواپنا موضوع زندگی ٹھہرا لیاتھا ان کانظریہ یہ تھا کہ شاہ ولی اللہ کی کتابوں کا کما حقہ فہم اور شعور