حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’ جب میلہ برخاست ہونے لگا اور سب اہلِ اسلام وہاں سے روانہ ہوئے تو میلہ کے ہندو وغیرہ (ان) مناظرانِ اسلام (میں سے حضرت ِ والا) کی طرف اشارہ کرکے اوروں کو بتلاتے تھے کہ یہ ہیں یعنی یہ (حضرت والا) ہیں جنھوں نے پادریوں کو عاجز کیا اور شکست دی ‘‘۔ (۱۲) جانکی داس جوگی نے کہا: ’’جے ہی مولی (یہی حضرت والا) ہیں جنھوں نے آج سب سے اپنا لوہا منوا لیا‘‘۔(۱۳) ختم مباحثہ پر حضرت والا نولس کے خیمہ میں خود ملنے تشریف لے گئے اور نصائح فرمائیں ، فرمایا کہ دین ِ عیسوی سے توبہ کیجئے اور دینِ محمدی اختیار کیجئے دنیا چند روزہ ، عذاب آخرت بہت سخت ہے، پادری صاحب نے کہا بے شک اور چپ ہو رہے اور آخر میں پادری نولس نے کہا کہ : ’’میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میرے حق میں اتنی فکر کیا اور میں آپ کی اس بات کو یاد رکھوں گا‘‘۔(۱۴) بہر حال حضرت ِ والا کی صداقت کمال لیاقت اور بیان کی بلاغت غیر مسلموں پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتی تھی، حکیمانہ دلائل اور فلسفیانہ براہین جدا گانہ چیز ہے، یہی تقریر و بیان کے تأثرات تھے کہ اگر یہ سننے والے غیر مسلم اگر اسلام نہیں بھی قبول کرتے تھے تو معترفِ حق ضرور ہو جاتے تھے اور اس طرح ان پر خدا کی حجت قائم ہو جاتی تھی۔ یہ تو اغیار کا قصہ ہے جو عرض کیا گیا، لیکن خود مسلمان کہلانے والے ایسے فضلاء بھی جن کی آنکھوں کو فلسفۂ جدید اور سائنس نے خیرہ کردیا تھا وہ بھی جب یہ بیانات سنتے تھے یا آج علماء دیوبند سے ان کی ترجمانی کو سنتے ہیں تو وہ نہ صرف مرعوب ہی ہوتے ہیں بل کہ ان کے خیالات کی دنیا میں انقلاب بپا ہو جاتا ہے اور وہ سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ان دلائلِ قاہرہ کے بعد عقائد و افکارِ دین کے بارے میں آخر وہ کس طرح اپنے اس طبعیاتی یا سائنسی موقف کوقائم رکھیں ؟ اور کیوں کر نہ اعترافِ حق کریں ۔‘‘ (۱۵) اس وضاحت کے بعد حکمت قاسمیہ کی خصوصیت کو خود اپنا تجربہ کی روشنی میں واضح فرماتے ہیں کہ : ’’اس حقیر نا کارہ کو خود بھی بارہا اس کا تجربہ ہوا کہ اس قسم کی جس مجلس میں بھی قابل گریجویٹوں سے خطاب ہوا اور مناسب ِ موقع حضرت والا کے علوم کی ترجمانی کی نوبت آئی تو بارہا یہی اعتراف و اقرار کا منظر دیکھنے میں آیا، اس سے ہم اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ آج کے دور کے انکار و الحاد اور دہریت و زندقہ کا قرار واقعی استیصال یا دفاع اگر ممکن ہے تو اسی حکمت قاسمیہ کی علمی روشنی سے ممکن ہے جو آج کے فلسفہ ٔ و سائنس