حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
چناں چہ مباحثۂ شاہ جہاں پور میں جو عیسائی پادری عیسائیت کے عمومی فروغ کے منصوبے لے کر شریک مباحثہ ہوئے، یا جو ہندو اپنے مذہب کی ترویج عام کے جذبات لے کر مجلسِ بحث میں حاضر تھے ا نھیں حضرت ِ والا کے یہ اعجازی بیانات اور فلسفیانہ اور حکیمانہ تقریرات استدلال سن کر سکوت ِ عجز کے ساتھ ان بیانات کی تاثیر و تصرف کا لوہا بھی ماننا پڑا، انقیاد و طاعت جدا گانہ بات ہے جو توفیق الہٰی پر موقوف ہے۔ پادری اینک نے کہا جو مباحثہ شاہ جہاں پور میں شریک اجلاس تھے: ’’ کیا پوچھتے ہو، ہم کو بہت سے اس قسم کے جلسوں میں شامل ہونے کا اتفاق ہوا اور بہت سے علماء اسلام سے اتفاق گفتگو ہوا، پر نہ یہ تقریری سنیں ، نہ ایسا عالم دیکھا، ایک دبلا پتلا سا آدمی، میلے سے کپڑے، یہ بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ کچھ عالم ہیں ، ہم جی میں کہتے تھے کہ یہ کیا بیان کریں گے؟ یہ تو ہم نہیں کہتے کہ وہ حق کہتے تھے (گو اس حق کا جواب دینے اور اپنا مفروضہ حق واضح کرنے سے عاجز بھی رہے جیسا کہ انھیں خود بھی دوسرے مواقع پر اس کا اعتراف کرنا پڑا) پر اگر تقریر پر ایمان لایا کرتے تو اس شخص کی تقریر پر ایمان لے آتے۔‘‘(۸) اسی پادری اینک نے مباحثہ کے آغاز میں علماء اسلام کو پہلو تہی کا طعنہ دیا تھا، لیکن حضرت ِ والا کی تقریر سن کر اس طعنہ کے خلاف رطب اللسان تھے۔ مولوی عبد الوہاب صاحب بریلوی نے حضرت ِ والا سے عرض کیا کہ یہ پادری (اینک) بعد اختتام مباحثہ ملنے آیاتھا اور حضرت کی تقریر وں کی تعریفیں کرتا تھا جیسا کہ میلۂ خدا شناسی ، ص ۴۰/ پر یہ تفصیل مرقوم ہے۔ ماسٹر جوئل نے (جو شاہ جہاں پور کالج میں مدرس (پروفیسر ) تھے کہا: ’’مسلمانوں میں ایک ہی عالم دیکھا۔‘‘ (۹) ایک اور پادری سے سید ظہور الدین صاحب شاہ جہاں پوری نے پوچھا، تم اس دن (یومِ مباحثہ) میں کچھ نہ بولے، انھوں نے کہا کہ : ’’ہم کیا کہتے، مولوی صاحب (حضرت نانوتویؒ) نے کوئی بات چھوڑ دی تھی جو ہم بولتے، ہمارے پادری نولس (جو یوم مباحثہ میں پادریوں کے سربراہ اور قائد تھے) ہی کو جواب نہ آیا‘‘(۱۰) جانکی داس جوگی نے (جو اس مباحثہ میں شریک ِ جلسہ تھا) خود حضرتِ والا سے کہا: ’’جب تم نے بولی ماری (تقریر کی) تو ہم نے دیکھا کہ اس کا (پادری نولس کا) اتنا سریر سوکھ گیا تھا (یعنی روح ہوا ہوگئی تھی)‘‘(۱۱) اسی طرح دوسرے ہندووں کے مقولے بھی اس کتاب میں اسی قسم کے نقل کیے گئے ہیں ، کہا گیا کہ: