حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حقائق اغیار کے سامنے آجائیں توعقلاً کوئی وجہ نہیں رہتی کہ وہ ایمان لانے کی طرف نہ جھکیں البتہ تعصب و عناد دوسری بات ہے جو زیر ِبحث نہیں ہے۔ بہر حال حکمت ِ قاسمیہ میں بیک وقت عقلی اور طبعی دلائل ساتھ ساتھ چلتے ہیں تاکہ ایک طرف اگر دینی مقاصد کا اثبات فطری طور پر عقلی رنگ میں ہو تو دوسری طرف ان کا ثبوت حسی اور مشاہداتی طور پر طبعی رنگ میں بھی ہو اور اس طرح آپ نے دین کے اثبات میں نظریاتی اور حسیاتی دونوں طریقے اختیار فرمائے ہیں ، بالفاظِ دیگر مبانی ٔ فلسفہ اور مبادیٔ سائنس دونوں ہی سے خدمت لی ہے تا کہ ایک طرف تفلسف مزاج لوگوں کے شبہات اور اشکالات فلسفیانہ انداز سے حل ہوں اور دوسری طرف مادہ پرستوں کے سائنسی شکوک و شبہات حسیاتی انداز سے مرتفع ہوں کہ اس کے بغیر اس دور کے مادہ پرستوں اور عقل پر ستوں کی اصلاح کا دوسرا راستہ نہیں تھا، اس لیے بے جھجک کہا جا سکتا ہے کہ اس قرن کے یہ عرفاء اور حکماء اور بالخصوص حضرت ِ والا اس دور کے مجدد تھے جنھوں نے اپنے اپنے وقت پر اپنے اپنے دائروں میں وقت کے تقاضوں کے مطابق تجدید دین اور اصلاح امت کے فرائض انجام دیئے ۔‘‘ (۷) حجۃ االاسلامؒ کی تحریریں زیادہ تر اردو میں اور اس دور کی اردو میں آج کی بہ نسبت یقینافرق ہے، خواہ اس طرح کے زیادہ شگفتہ اور بلیغ نہیں ہوتی تھی یا اس معنی کر کہ ترقی یافتہ اردو کی طرح بامحارہ سلیس نہیں تھی، مگر حکیم الاسلامؒ کے بیان کے مطابق حضرت نانوتویؒ کی تحریروں میں جو اردو استعمال ہوئی ہے وہ انتہائی فصیح و بلیغ اور معیاری ادب کا نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم اور غیرمسلم سبھی حضرت نانوتویؒ کے بیانات اور استدلالات کو نہ صرف سمجھتے تھے بلکہ ان پر دادِ تحسین بھی دیتے تھے، اس سلسلہ میں حکیم الاسلامؒ کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیے: ’’اس پر بیان کی بلاغت و فصاحت کا یہ عالم ہے کہ آج سے سو برس پہلے کی اردو کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے حضرت ِ والا کے حکیمانہ بیانات کی اردو آج سو برس بعد کی اردو سے دور نہیں محسوس ہوتی، محاورات کا فرق جدا گانہ چیز ہے جو حسب تقاضائے وقت بدلتے رہتے ہیں لیکن طرزِ ادا اور اسلوب بیان آج کے معیار ادب کے لحاظ سے بھی اونچے درجہ کی فصاحت اور بلاغت سے گرا ہوا نہیں جس سے آج کا ادیب بھی نہیں اکتا سکتا۔ مضمون کی بلندی اور حقائق کی گہرائیوں کی وجہ سے اگر کسی قلیل المناسبت یا کم استعداد کو ان عالی مضامین کے سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو وہ بیان حکمت کا قصور نہیں ہے بل کہ ناظر و مستمع کی علمی استعداد کا قصور ہو سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس دور کے مسلم اور غیر مسلم ادباء اور اردو داں حضرات کے سامنے حکمت قاسمیہ کے ادیبانہ اور بلیغ بیانات نفس ِ بیان و تقریر کے لحاظ سے بھی اک مثالی درجہ رکھتے تھے، جس کا اپنوں اور پرایوں بل کہ دشمنوں کو بھی اعتراف تھا۔