حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
میں شریعت کا کوئی دعویٰ مخالف عقل وقیاس نہیں ہوسکتا چناں چہ قبلہ نما میں اس کی تفاصیل دیکھی جا سکتی ہیں ۔‘‘ (۶) حجۃ الاسلامؒ کے عقلیاتی و مشاہداتی طرزِ استدلال سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ محض سائنسی اور منطقی طرز ہے، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی نظیر نہیں یا اس طرز کے جواب کی سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ یہ طرز کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت کی بے شمار نشانیوں اور آفاق و انفس کی بے شمار آیات بینات میں تدبر اور تفکر اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و خالقیت پر استدلال ہی کا ایک اچھوتا طرز ہے۔ چنانچہ حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن حکیم نے کائنات کے مشاہدات زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے، دریا، پہاڑ، جمادات، نباتات اور ہواؤں کی شمالی ، جنوبی رفتاروں سے بہت سے غیبی حقائق پر استدلال کیا ہے جو بلا شبہ فطری اور طبعی طرزِ استدلال ہے، حضرت نے ان مکونات کے اندرونی مکونات کی گہرائیاں طبعی انداز میں کھول کر ان استدلالات کو عقلی سے زیادہ طبعی بنادیا ہے اس اصول پر کہ یہ خدا کے افعال ہیں اور اس کے افعال سے زیادہ اور کس کے افعال فطری ہو سکتے ہیں ، آ پنے بدلائل واضح کیا ہے کہ قرآن کے یہ استدلالی مقدمات کن کن گہری اور فطری حقائق کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں جن سے یہ مسائل ثابت ہو رہے ہیں ، اس لیے قرآن کے یہ سب مسائل محض عقلی ہی نہیں بل کہ سائنٹفک بھی ہیں ، مثلاً قرآن حکیم نے عالم کے جزئیاتی تغیرات سے قیامت کے ثبوت پر استدلال کیا ہے جو اس کا مخصوص شرعی انداز ہے، حضرت نے اسے کھولتے ہوئے کہا ہے کہ جب عالم کے یہ جزئیاتی تغیرات طبعی اور سائنٹفک ہیں جو سائنس کا دعویٰ ہے تو عالم کا کلی تغیر یعنی مجموعۂ عالم کی موت بھی طبعی ہے جسے قیامت کہتے ہیں پس قیامت کو عقلی دلائل سے الگ ثابت کیا ہے جو فلسفہ کا موضوع ہے اور طبعی اور مادی شواہد سے الگ نمایاں کردیا ہے جو سائنس کا موضوع ہے۔ اس طرزِ استدلال سے جہاں تکوین و تشریع کے مسائل طبعی انداز میں ثابت ہوتے ہیں وہیں ان حقائق اور دقائق سے قرآن حکیم کا معجزہ ہونا بھی نمایاں ہوتا ہے کہ خدا ہی کے کلام میں ایسی گہرائیاں ہو سکتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس سے بلا شبہ مؤمن کا قرآن حکیم پر ایمان نہ صرف تازہ بتازہ بل کہ علی وجہ البصیرت ہو جاتا ہے جو مقصود ِ اصلی ہے، اور ان عقلی اور طبعی حقائق کے کھولنے سے ہی ممکن ہے۔ اس سے واضح ہے کہ قرآنی حقائق جب اس عقلی اور طبعی انداز سے سامنے آئیں اور جب کہ وہ کسی دور میں بھی خلاف ِ واقعہ نہیں ثابت ہوں گے اور نہ ہو سکتے ہین تو یہ محض اعجاز ِ قرآن ہی کی بین دلیل نہ ہوگی بلکہ اس پر لائے ہوئے ایمان کی مضبوطی کی بھی ایک مستقل حجت ہوگی جو حقائق بیانی کا ایک زبر دست اور عظیم مفاد ہے کہ ایمان علی وجہ البصیرۃ ہو جائے جو حقیقتاً ایمان کے تحقیقی ہو جانے کی صورت ہے اب اگر یہی