حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بعض ایسے جزوی مسائل جنھیں فقہائِ امت خلاف ِ قیاس امر تعبدی کہہ کر گذر گئے ہیں حضرت والا کے یہاں وہ بھی قیاسِ جلی سے پیدا شدہ عقلیاتی ہیں چوں کہ آپ کے نزدیک شریعت کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور جزوی سے جزوی مسئلہ بھی غیر قیاسی یا مخالف ِ عقل تسلیم نہیں کیا گیا ہے مثلاً قہقہہ کا ناقضِ وضوء ہونا تمام فقہاء کے نزدیک ایک خلاف ِ قیاس اور بالفاظِ دیگر غیر عقلی ہے اس لیے وہ اس کی کوئی عقلی دلیل نہ پاکر اسے تعبدی کہتے گئے ہیں جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ عقل کے خلاف محض ایک امر شرعی ہے جسے صرف بوجہ ایمان تسلیم کیا جائے گا لیکن حضرت والا نے اسے بھی عقلی قرار دے کر اس پر عقلی دلائل پیش فرمائے ہیں اور بتلایا ہے کہ جس کلیہ سے یہ جزیہ پیدا ہوا ہے جب وہ عقلی ہے توجزیہ کے غیر معقول ہونے کے کوئی معنٰی نہیں ہوسکتے ۔‘‘(۵) حجۃ الاسلامؒ کی ایک اور خصوصیت یہ سامنے آتی ہے کہ وہ نصوص کی طرح اخبار و واقعات سے بھی استنباط فرماتے ہیں اور ان کے نزدیک شرعی واقعات بھی اصولِ عقلیہ سے باہر نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز فکر اور بصیرت کی دلیل ہے جیسا کہ حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں : ’’اس سے بھی زیادہ عجیب اور حیرت ناک یہ ہے کہ عامۃ قیاس و استنباط کا تعلق احکام سے ہوتا ہے نہ کہ اخبار اور واقعات سے، عقلی طور پر یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکم معقول ہے لیکن عقلی استدلال سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ واقعہ معقول اور عقلی ہے اور اسے عقلاً بھی یوں ہی ہونا چاہیے تھا، لیکن حضرت والا کے یہاں شرعی واقعات بھی اصول عقلیہ سے باہر نہیں ہیں اور آپ کاخدا داد علم اور فراست اخبار اور واقعات کی عقلی لمیات میں بھی اسی طرح کام کرتا ہے جس طرح وہ احکام اور اوامر و نواہی کی حقائق بیانی میں کار فرما ہے۔ ظاہر ہے کہ واقعات اور حوادث کو کسی عقلی اصول سے جوڑ کر یہ دعویٰ کرنا کہ یہ واقعہ عقلاً بھی یوں ہی پیش آنا چاہیے تھا جس طرح کہ وہ واقعہ پیش آیا، بلا شبہ علم و فراست اور قلبی ذکاوت کی ایک نادر مثال ہے۔ دنیا میں کعبۂ معظمہ (بیت اللہ) کا وجود ان کے یہاں محض تکوینی نہیں بل کہ عقلی بھی ہے یعنی بیت اللہ عقلاً بھی اسی محل میں ہونا چاہیے تھا جس میں وہ واقع ہے پھر بیت اللہ کا اول بیت ہونا جو قرآنی دعویٰ ہے ان کے یہاں محض تاریخی نہیں بل کہ عقلی بھی ہے کہ اسے عقلابھی اول بیت ہی ہونا چاہیے تھا جیسا کہ وہ ہے حتی کہ بیت اللہ کے چالیس سال بعد مسجد ِ اقصیٰ بنیاد رکھے جانے کی یہ اربعینی مدت بھی عقلی ہے کہ اقصیٰ تک کی تاسیس عقلاًبھی کعبہ کے چالیس ہی سال بعد ہونی چاہیے تھی۔ اس سے بھی عجیب تریہ کہ کعبۂ محترمہ اور مسجد ِ اقصیٰ کا درمیانی فاصلہ جو تقریباً ڈھائی تین سو میل ہے یہ بھی ان کے اصول پر عقلی ہے محض تاریخی یا جغرافیائی نہیں صرف اس لیے کہ وہ شرعی دعویٰ ہے اور ان کے اصول حکمت