حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کتابوں کے حوالوں کا التزام نہیں ، اس کی مزید وضاحت فرماتے ہیں کہ: ’’حقائق سب کی سب منقول لیکن پیرایۂ بیان بلا حوالہ نقل خالص معقول اور اس کے ساتھ فلسفیانہ اور سائنٹفک گویا عقل و طبع دونوں کو صحیح معنی میں حضرت نے دین کا ایک خدمت گار بنا کر دکھلا دیا ہے کہ فلسفہ اور سائنس کا کان پکڑا اور دین کے جون سے گوشے کی چاہی ان سے خدمت لے لی، جس سے دین کی نسبت سے عقل و طبع دونوں کا موقف بھی خودبخود کھل کر سامنے آجاتا ہے۔‘‘(۴) یہاں قدرتی طور پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت نانوتویؒ کا یہ طرز عام ذہنوں کے لئے کچھ پیچیدہ اور مشکل معلوم ہوتا ہے اور بسا اوقات مخصوص اصطلاحات اور نادر علمی تعبیرات کے باعث طرز بیان کی چاشنی اور شگفتگی بھی ایسے احوال میں متاثر ہوجایا کرتی ہے۔ کہیں حجۃ الاسلامؒ کی عبارتوں میں یہ صورت حال تو نہیں ؟ حکیم الاسلامؒ اس کی وضاحت فرماتے ہیں : ’’اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ مضامین نہایت بلند پایہ ، بہت گہرے اور علوم نہایت دقیق اور غامض ہیں لیکن طرزِ بیان نہایت شگفتہ اور سہل ہی نہیں بل کہ سہلِ ممتنع۔ مقدمات کی ترتیب ِ طبع کہ اہم سے اہم نتائج گویا خود بخود نکلنے کے لیے ابھر رہے ہیں تقریر استدلالی نہایت مرتب جو ذہن کو اپیل کرتی ہوئی اس کی گہرائیوں میں اتر جاتی ہے اور ساتھ ہی حضرتِ والا کا شاخ درشاخ بیان مسئلہ کے تمام شقوق و جوانب پر اتنا حاوی اور اس کے تمام گوشوں کا اس درجہ واشگاف کنندہ ہوتا ہے کہ اس سے صرف وہی ایک زیر بحث مسئلہ حل نہیں ہوتا بل کہ اس کے سیکڑوں امثال جو اس کی زد میں آجائیں ، خواہ وہ کسی دوسرے ہی باب کے ہوں اس اصولی طرزِ بیان سے حل ہوتے چلے جاتے ہیں بل کہ قلوب پر کتنے ہی علوم و معارف کے دروازے کھلتے جاتے ہیں جن سے نئے نئے مسائل کا راستہ بھی ہموار ہوتا چلا جاتا ہے، اس صورت ِ حال سے آدمی یہ ماننے پر مجبور ہوتا ہے کہ شریعت کے اس جزیہ کی پشت پر عقلی کلیات کی کس قدر کمک موجود ہے اور کتنے کلیئے اور عقلی اصول اس ایک جزیہ میں اپنا عمل کر رہے ہیں جس سے وہ عقلی ہی نہیں طبعی نظر آنے لگتا ہے، بقول حضرت عارف باللہ مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اولین صدر مدرس دارالعلوم دیوبند کہ: ’’حضرتِ والا کے دماغ کی ساخت ہی خلقی طور پر حکیمانہ واقع ہوئی تھی، اس لیے بلا اختیار ان کے دماغ میں حکمت ہی کی باتیں آسکتی تھیں جس سے ان کے یہاں جزوی مسائل کا کلام بھی کلیاتی رنگ اختیار کرکے ایک کلیہ بن جاتا تھا اور اس سے وہی ایک جزیہ نہیں بل کہ اس جیسے سیکڑوں جزیئے حل ہو جاتے تھے اور اوپر سے ان کا وہ کلی اصول کھل جاتا تھا جس سے اس جزیہ کا نشو و نما ہوا ہے‘‘۔