حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ساتھ ان حقائق کو آج کے محسوسات اور دور حاضر کے حسی شواہد و نظائر سے بھی مدلل کرکے اس طرح پیش کیا کہ اسلام کے غیبی امور، شریعت کے بنیادی مقاصد اور دینِ فطرت کے مبانی واصول اس حِسّیاتی رنگ ِ استدلال سے بالکل طبعی اور محسوس و مشاہد نظر آنے لگے، ذات و صفات ِ خداوندی ، مبداء و معاد، توحید و رسالت، عقائد و شرائع ، برزخ اور قیامت ، سزا و جزاء ، حشر و نشر، وزن اعمال، میزانِ عمل، جنت و نار، ملائکہ و جنات، عرش و کرسی، لوح و قلم وغیرہ ان عقائد اور ان سے متعلقہ اعمال کا صفاتِ خداوندی سے ربط و علاقہ کلیات ِ دین کے ساتھ فرعیات کا ارتباط پھر شرائع و عقائد کی عقلی اور طبعی مصالح اس طبعیاتی طرزِ استدلال سے کچھ اس طرح واشگاف فرمائے کہ یہ سب امور فطرت اور طبیعت کا مقتضا محسوس ہونے لگ گئے جس سے اور اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ِ والا ان حقائق کو محض نظری دلائل کے زور سے جبری طور پر دل میں ٹھوسنا نہیں چاہتے بل کہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ دین کے یہ تمام عقائد و احکام فطرۃ اور طبیعت کا تقاضا ہیں جن کا وجود اسی طرح قابلِ تسلیم ہے جیسے چمکتے ہوئے سورج کا وجود جس سے ایک فہیم انسان جبری انداز سے نہیں بل کہ طبعی تقاضوں سے انھیں ماننے اور تسلیم کرنے کے لیے بطوع و رغبت جھکنے کے لیے تیار ہو جائے، حضرت ِ والا کے اس نئے طرز اثبات سے اس پورے دین کا محض دین ِ عقلی ہونا ہی نہیں بل کہ دینِ فطرت ہونا نمایاں ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرتِ والا کی کتابوں میں ان کی تقریرات ِ استدلال سے واضح ہوگا۔‘‘(۲) حجۃ الاسلام حضرت نانوتویؒ نے شرعی مستدلات کو عقلیات کے رنگ میں پیش کرنے کاجو طریقہ اپنایا وہ اپنے آپ میں اتنا منفرد اور بے نظیر تھا کہ سینکڑوں کتابیں پڑھ جائیے، علوم و فنون کے قدیم و جدید دفاتر کو کنگھال ڈالئے، اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا، ایسی صورت میں اس اسلوب کے ماخذ کے بارے میں اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ بس آپ کا الہامی اور وجدانی اسلوب تھا، جو اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے آپ کے قلب پر القاء فرمایاتھا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں ـ: ’’ساتھ ہی حیرت ناک بات یہ ہے کہ حضرت ِ والا کا یہ علم بلا شبہ لدنی ہے درسی یا کتابی نہیں ، الہامی اور وجدانی ہے جس کا بظاہر دوسروں کے وجدان کے لیے حجۃ ہونا ضروری نہیں تھا، لیکن آپ کا طرز ِ بیان خالص استدلالی اور منطقی ہوتا ہے جو مطیع و منکر دونوں کے لیے یکساں حجت ہو۔‘‘ (۳) حضرت حکیم الاسلامؒ کے بیان سے معلوم ہوا کہ حجۃ الاسلامؒ کا طرزِ بیان استدلالی اور منطقی ہوتا تھا مگر اپنے رنگ میں اور اندازمیں خالص لدنی،وجدانی اور الہامی، شاید یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریرات میں