حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کریں جو حجۃ الاسلام رحمۃاللہ علیہ کے اس منفرد استدلالی اسلوب کے لئے محرک ثابت ہوئے۔ ’’ بحر اور بر اور خلاء و فضاء سب ہی مشینوں کی زد میں آگئے پھر ساتھ ہی سائنس نے مادہ کے ہزارہا سربستہ راز دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیئے جس سے دنیا مخفی اور پنہاں چیزوں کا مشاہدہ کرنے کی عادی ہوگئی، بالفاظِ دیگر فلسفۂ جدید اور سائنس کے نئے نئے انکشافات سے جن کی بنیاد مشاہدات پر تھی، دنیا عقلی نظریات اور معقولات سے گذر کر محسوسات کی گرفت میں آگئی تو قدرتی طور پر پرانے نظریات میں انقلاب رونما ہوا۔ اس لیے اب وہی عقل پرست طبقہ حس پرستی کا شکار ہوا اور اس دور کی دنیا نظریاتی استدلال سے زیادہ حسیاتی اور مشاہداتی استدلال کی لائنوں پر آگئی، اب اس کے یہاں کوئی شرعی دعویٰ اس وقت تک قابلِ سماعت نہیں رہا جب تک کہ وہ معقولات کے ساتھ محسوس شواہد سے محسوس کرکے نہ پیش کیا جائے اور روحانی معتقدات کی پشت پر مشاہداتی حجتیں نہ ہوں ۔ بنا بریں اسی خوگر محسوس طبقہ نے اسلامی حصار پر عقلی نظریات کے بجائے حسی مشاہدات اور طبعیاتی افکار سے حملے کرنے شروع کردیئے، اس لیے ضرورت تھی کہ اب اسلامی مسائل کو نظر یاتی لباس سے ملبوس کرنے سے زیادہ طبعیاتی رنگ کی قمیصوں میں ملبوس کرکے پیش کیا جائے اور طبعیاتی شکوک و شبہات کا جواب انہی طبعیاتی اکتشافات کے اصول سے دیا جائے۔‘‘ (۱) عقلیاتی رنگ میں حقائق کو پیش کرنے کے احوال تھے، محض شرعیاتی نصوص سے استدلال پر اکتفاء وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہا تھا، اسی طرح مغیبات کو محسوسات کے پیرائے میں سمجھنے کا مزاج بھی پیدا ہوچکا تھا، اس لئے ضرورت تھی کہ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر ہی تفہیم دین اور عقلی رنگ میں پیش کئے جانے والے اعتراضات کا مسکت جواب دینے کے لئے کوئی موثر اسلوب اختیار کیا جاتا۔آگے اس کی وضاحت فرماتے ہیں : ’’اس صدی کے اوائل میں حق تعالیٰ کی فیاض قدرت نے شمس الاسلام حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کو اس دور کے طبعیاتی رنگ کے امراض اور جراثیم کے معالجہ کے لیے بطور طبیب اور مصلح امۃ کے نمایاں فرمایا اور آپ نے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان بندگانِ سائنس و مشاہدات کے دماغوں کو انہی کے مسلمات سے جھنجھوڑا اور ان کے دماغوں کا تنقیہ شروع فرمایا۔ حکمت ِ قاسمیہ کے تمام اجزاء نے (جو حضرت ِ والا کی تصانیف میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں ) جہاں اسلامی حقائق پر گہری لِمّیاتی اور خالص عقلی دلائل کی روشنی ڈالی وہیں وہ پورے زور اور قوت کے