حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سو انسان مجموعہ اضداد تھا بہائم شہوت محض ہیں ملائکہ عقل محض ہیں شیطان شر محض ہے اس لیے ان میں ترقی نہیں لیکن انسان میں شہوت عقل طبع بہیمیت شیطنت ملکیت سب جمع کردی گئیں اس میں سب سے زیادہ ترقی کے امکانات پیدا ہوئے اگر بہیمیت کو عقل سامنے لائے گا تو عفت پیدا ہوگی اور تقویٰ کے شعبے پیدا ہوں گے جو بہیمیت کو اعتدال پر لائیں گے اور اگر عقل کو بہیمیت کے ساتھ جمع کرے گا توانتہاء پسندی پیدا ہوکی اگر عقل کو بہیمیت شیطنت سے ٹکرائے گا تو تدبر و فراست کے شعبے پیدا ہوں گے اور شیطانی اعمال تدبیر و خرد کا لقب پائیں گی جو فرشتہ کہ جو عقل محض تھا نہیں کرسکتا تھا غرض اس تصادم میں خیر کی ترقی بھی مضمر ہے اور شر کی بھی اور صلاحیت صرف انسان میں تھی اس لیے حق تعالیٰ نے اپنا خطاب تکلیفی براہ راست صرف اسی کو فرمایا اور مورد نبوت و الہام صرف اسی کو بتایا ہے۔(۹) انسان باشعور ہو تو ممکن نہیں ہے کہ جذبات وتأثرات سے الگ رہ سکے ، محبت بھی ایک جذبہ اور تأثر ہے۔دیکھنایہ ہے کہ اس جذبہ اور تأثر کاسبب کیاہوتاہے؟ اس سوال کا جواب حکیم الاسلامؒ کی زبان سے سنئے: ’’جمال، کمال، نوال، اتصال، اطاعت کے چار اسباب کمال عقل کمال علم کمال اخلاق اور کمال عمل، حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اسباب محبت سب کے سب جمع ہی نہیں بلکہ انتہائی کمال پر پہنچے ہوئے ہیں ، اس لیے آپ سے قدرتاً محبت وہی ہونی چاہیے کہ کسی سے بھی نہ ہو، کیوں کہ یہ اسباب کسی بھی انتہائی کمال کے ساتھ جمع نہیں ہیں اور ایسے ہی اطاعت کاملہ بھی آپ کے سوال دوسرے کی نہیں ہونی چاہیے کہ اسباب اطاعت آپ سے زیادہ عالم میں کسی میں نہیں ۔ کمال محبت کا ثمرہ کمال ذکر ہے اور کمال اطاعت کا ثمرہ کمال فکرہے جب ذکر و فکر کامل ہو جاتا ہے تو محبت و اطاعت بھی کامل ہو جاتی ہے اور اس کا ثمرہ یہ ہے کہ آدمی محب سے محبوب بن جاتا ہے’’ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ‘‘ اور اطاعت سے پھر محل اطاعت بن جاتا ہے’’دارالحق معہ حیث دار‘‘اور’’ان ربک یسرعک فی ہواک، لولایزال یتقرب عبدی بالنوافل حتی انت سمعہ الذی یسمع بی وبصرہ الذی یبصر بی ویدہ التی یبطش بہا‘‘ تو اس شان سے محبوب الٰہی اور مرجع نظر الٰہی ہو جاتا ہے گویا مظہر کمالات ربانی بن جاتا ہے۔ (۱۰) مثبت تعمیری فکراور اصول کی روشنی میں گفتگوکرنا حکیم الاسلام ؒ کی شخصیت کا سنگ بنیاد ہے، اس کا بھی ایک نمونہ دیکھئے: ’’میرا اصول یہ ہے کہ لوگوں کو اصول سے پکڑا جائے جزئیات سے نہیں ، جزئیات اختلاف کی جڑ